Get Alerts

علی اکبر ناطق کا ناول ”کوفہ کے مسافر“

ناطق کا کوفہ کے مسافر عصمت چغتائی کے دو بوند پانی سے آگے کی تخلیق ہے ، تاریخ اور فکشن کو جس طرح گوندھ کر لکھا جاتا ہے وہ اردو زبان ادب کے صرف دو ہی ناول ہیں، ایک شمس الرحمن ٰفاروقی کا ، کہیں چاند تھے سر آسمان اور اب علی اکبر ناطق کا کوفہ کے مسافر یہ ناول

علی اکبر ناطق کا ناول ”کوفہ کے مسافر“

علی اکبر ناطق معاصر عہد کے اہم ترین فکشن لکھنے والوں میں نمایاں نام ہیں ، ان کا ناول نولکھی کوٹھی تو عصر حاضر کے اہم ترین ناولوں میں سے ایک ہے ، میرا ان سے تعارف انکے ناول کماری والا کے ذریعے ہوا جب میں لاہور میں صحافتی اور ادبی  حلقوں  میں اپنا کام کر رہا تھا ،سخن ویب سائٹ اور ٹی وی کے ماڈل ٹاؤن والے دفتر میں وقاص عزیز کی میز  پر پڑا دیکھا تھا۔ کماری والا نام مجھے منفرد لگا ، کماری والا ،  ناول 2سے3 نشستوں میں پڑھ لیا اور قائل ہو گیا کہ علی اکبر ناطق ایک بہت اچھا فکشن نگار ہے مجھے یاد اس بات سے چند برس قبل علی اکبر ناطق کو پہلی بار دیکھا تھا ، حلقہ ارباب ذوق کے انتخابات تھے ، میں سرفراز صفی کا پولنگ انجیٹ تھا ناطق صاحب ووٹ ڈالنے آئے تھے اگر میں غلطی پر نہیں تو انکا نام انتخابی فہرست سے غائب تھا جس پر کچھ بدمزگی بھی ہوئی تھی۔

خیر وہ ایک سرسری سی ملاقات تھی ناطق صاحب سے بات بھی نہیں ہوئی،  پھر ناول کماری والا پڑھا اچھا سوچا کہ اب ان کا ناول نولکھی کھوٹی بھی پڑھا جائے مگر ، حالات کی خبر وطن عزیز سے ہجرت کراتا ہوا برطانیہ لئے آیا،  ادھر آکر شوشل میڈیا پر انکے ناول  کوفہ کے مسافر کا تذکرہ سنا دل چاہا پڑھا جائے واٹس ایپ پر ناطق صاحب سے رابطہ ہوا چند ہفتوں میں ناول برطانیہ پہنچ گیا۔

 یہ ناول واقعہ کربلا پر لکھا گیا۔ کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا المیہ ہے جس فخر بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی ، فخر اس لئے کے اسلامی تاریخ میں مزاحمت اور حرف انکار کی جو تاریخ حسین ؑ نے لکھ دی ہے وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لئے کیس سنڈی بن چکی ہے اور شرمندگی دکھ اس لئے کے حسین ابن علی ؑ  کوشہید کرنیوالے  وہی بدبخت تھے جو انکے نانا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دین کا نام لیتے تھے،  واقعہ کربلا پر شاعری بہت زیادہ ہوئی ہے۔ ، مگر فکشن لکھنے کا خیال کم لوگوں کو آیا۔ 

اردو زبان ادب کی بڑی فکشن نگار عصمت چغتائی نے دو بوند پانی  کے نام سے واقعہ کربلا پر ناول لکھا ، اور اب علی اکبر ناطق نے لکھا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ عصمت چغتائی بہت بڑی فکشن نگار تھیں۔ مگر ناطق کا کوفہ کے مسافر عصمت چغتائی کے دو بوند پانی سے آگے کی تخلیق ہے ، تاریخ اور فکشن کو جس طرح گوندھ  کر لکھا جاتا ہے وہ اردو زبان ادب  کے صرف دو ہی ناول  ہیں،  ایک شمس الرحمن ٰفاروقی کا ، کہیں چاند تھے سر آسمان اور اب علی اکبر ناطق کا کوفہ کے مسافر یہ ناول پڑھ کر ناطق کے قلم پر رشک آتا ہے کہ  کیسے وہ تاریخ اور فکشن کے  ساتھ ساتھ مہارت سے لے کر چلتا رہا ہر جملے پر واہ واہ کہنے کو دل کرتا ہ۔

ججاز مقدسہ کے مقامات کے نام ہوں یا وہاں بسنے والے انسانوں کے نام ہوں لگتا ہی نہیں کہ اوکاڑہ کا  رہائشی اردو زبان کا ادیب یہ ناول لکھ رہا ہے یوں لگتا ہے جیسے عرب کا ہی کوئی فکشن ہے جس کا اردو ترجمہ پڑھ رہے ہیں  ، کوفہ کے مسافر ایک شاہکار ناول ہے اس کے بعد تخلیق کار  کو اس سے بھی بڑے ناول کی توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں،  دیکھتے ہیں کہ اب علی اکبر ناطق کیا کرتے ہیں۔