سیاست میں بیانیہ روح کی حیثیت رکھتا ہے۔بیانیہ کی جاندار ی اور جامعیت سیاستدانوں کو طاقت اور پذیرائی بخشتی ہے۔ بیانیہ محض اظہاریہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی سیاسی رہنما نے تقریر کردی تو اس خطاب کو بیانیہ قرار دے دیا جائے۔سیاسی اصطلاح میں بیانیہ ایک جامع سیاسی پروگرم ہوتا ہے۔جس سےیہ امر واضح کیا جاتا ہے کہ سیاست اور سیاسی فلسفہ کیا ہوگا۔معاشی وسماجی طریق کیسا ہوگا۔داخلی و خارجی پالیسی کیا ہوگی۔جس پر قوم کی تشکیل سمیت تعلیم و تربیت بھی کی جاتی ہے اور سیاسی مقاصد کا حصول بھی ممکن ہوتا ہے۔جو پہلے سے موجود بیانیہ کو مسترد کرتا ہے۔ بیانیہ سیاسی جماعت دیتی ہے۔سیاسی اتحاد بیانیہ نہیں دیتے ہیںاور نہ ہی دے سکتے ہیں۔اگر دیتے بھی ہیں تو وہ بیانیہ کارگر ثابت نہیں ہوتا ہے۔ماضی کے اتحاد اور ان کے بیانیے سامنے ہیں۔اتحاد وقتی ہوتے ہیں ۔اتحاد بنتے ہی ٹوٹنے کےلئے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ بہت واضح ہے ۔آج کے عہدمیں ہر بات کھل کر سامنے آگئی ہے۔کوئی امرپوشیدہ نہیں رہا ہے۔ملک کا ہر شہری جانتا ہے کہ بیانیہ کس کا ہے اور کون تشکیل دیتا ہے۔ملکی معاملات کس بیانیہ کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ جاری اور رائج وقت بیانیہ کے متبادل بیانیہ کےلئے پہلے بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔مزاحمت کے اس میدان میں بہت کچھ کھویا ہے۔
بیانیے کی اس جنگ میں ہم نے ذوالفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو قربان کیا ہے۔ بے شمار سیاسی کارکنوں کی بلی چڑھائی ہے۔ آدھا ملک گنوادیا گیا ہے۔مگر ہم ناکام اور نامراد ٹھہرے ہیں ۔ہمارے ساتھ بار بار دھوکہ ہوجاتا ہے۔ ہم ہار جاتے ہیں ۔تھک جاتے ہیں ۔ کیوں،ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا غلطی ہے جو بار بار کی جارہی ہے اور نتائج وہی برآمد ہوتے ہیں جو ماضی میں ہوئے تھے۔
قائد عوام ذولفقار علی بھٹو کا یقین تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔یہی بات محترمہ بے نظیر بھٹو کے من میں تھی۔اب یہی خیال میاں نوازشریف کا ہے۔میاں نواز شریف یہ تو مکمل طور جان چکے ہیں کہ یہ راستہ کٹھن ہے۔ شاید میاں نواز شریف جان دینے کو بھی تیار ہوچکے ہوں گے۔مگر دل کےمعاملے تو اللہ جانتا ہے یا پھر خود میاں نوازشریف ہی جانتے ہیں کہ ان کے دل میں کیا ہے۔
طاقت کا سر چشمہ عوام ایسے نہیں ہوتے ہیں ۔جیسے ماضی میں خیال کیا گیا ہے اور جیسے اب نواز شریف سوچ رہے ہیں۔ عوام طاقت کا سرچشمہ تب ہوتے ہیں جب عوام کے اندر سیاسی نظریات سے لیس منظم سیاسی جماعت ہوتی ہے او جب وہ سیاسی جماعت عوام میں حلول کرجاتی ہےتو پھر عوام طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں۔بصورت دیگر انجام وہی ہوتا ہے جو ہوا ہے اور جو ہوگا۔
عہد رواں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف قائد عوام زوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے آگے بڑھ کر بول رہے ہیں۔جمہوریت پسند اور سول بالادستی کے خواں خوش ہیں کہ آخر نواز شریف نےطبل جنگ بجا دیا ہے ۔ بات تو درست ہے۔ تسکین تو خوب ہوئی ہے۔ تالیاں بھی خوب ہیں۔ بی بی مریم نواز اور بلاول بھٹو فرنٹ پر اچھی پرفارمنس دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
بیانیہ نیا ہے اور نہ ہی اظہاریہ میں کوئی نہیں بات ہے۔پرانی فلم کا نیا سکرپٹ ہے۔ ری مکس ہے۔فرق بس یہی ہے کہ سنیل دت کی جگہ سنجے دت ہے۔فلم ڈان میں جو کچھ امیتابھ بچن نے کیا شاہ رخ نے بھی کردیکھایا ہے۔
نوازشریف بھی شاید وہی غلطی دہرانے جارہے ہیں اگر وہ اپنی بات پر کھڑے رہتے ہیں۔محترمہ بے نظیربھٹو شہید ہوتی ہے تو آصف علی زرداری ملک کے صدر بنتے ہیں ۔میاں نواز شریف شہید ہوں گے تو مریم بی بی وزیراعظم بن سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو روٹی کپڑا مکان اور انصاف نہیں ملے گا