سعودی عرب کی مشاورتی شوریٰ کونسل نے قومی پرچم اور ترانے میں تبدیلیوں کی منظوری دے دی ہے۔
ریاستی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ تبدیلیاں جھنڈے، نعرے اور قومی ترانے پر حکومت کرنے والے نظام میں ترمیم کے حق میں ہیں۔ تاہم تبدیلیاں کے مندرجات سے متعلق کوئی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی غیرمنتخب شوریٰ کونسل نے تبدیلیوں کے حق میں ووٹ دیا اور یہ سعودی ولی عہد کی جانب سے سعودی قومیت اور قومی فخر کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے۔
شوریٰ کے فیصلوں پر موجودہ قوانین اور ڈھانچہ اثرانداز نہیں ہوتا تاہم ووٹ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس کے اراکین کا تقرر فرماں روا کرتے ہیں اور اس کے فیصلے عموماً قیادت کی رضامندی سے ہوتے ہیں۔
سرکاری میڈیا نے رپورٹ میں بتایا کہ تبدیلیاں پرچم، نعرہ اور قومی ترانے کے نظام میں ترامیم کے حق میں ہیں لیکن اس کے مندرجات سے نہیں ہیں تاہم کونسل نے مزید تفصیلات جاری نہیں کیں۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ مجوزہ تبدیلیاں ریاستی نشانات کے باقاعدہ استعمال کے لیے واضح تعریف، پرچم کی اہمیت کی آگاہی پھیلانے اور پرچم کو بے حرمتی یا نظرانداز ہونے سے بچانے کے حوالے سے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سعودی پولیس نے بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 4 افراد کو گرفتار کیا تھا، جن پر الزام تھا کہ سعودی پرچم کو کچرا کنڈی میں جمع کرکے اس کی بے حرمتی کی ہے۔
سرکاری سعودی پریس ایجنسی نے رپورٹ کیا تھا کہ شوریٰ کونسل نے پرچم سے متعلق تقریباً 50 سالہ پرانے شاہی فرمان میں ترامیم کے ڈرافٹ کی منظوری کے لیے ووٹ دیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ترامیم کونسل کے رکن سعد العطیبی نے پیش کی تھیں اور کونسل کے اراکین میں بحث سے قبل ذیلی کمیٹی میں زیر بحث آئی تھیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے بزرگ والد شاہ سلمان کی حمایت کے ساتھ سعودی شناخت کا تعین نو کر رہے ہیں، جس کی تعریف پہلے سے وضع نہیں کی گئی ہے۔
اس کی تازہ مثال حال ہی میں جاری ہونے والا شاہی فرمان ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 22 فروری کو سعودی عرب کا یوم تاسیس منایا جائے گا۔
قومی دن 18 ویں صدی میں محمد بن سعود کی جانب سے پہلی سعودی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی کوشش کی یاد میں منایا جائے گا۔
حکومت نے ہدایات دی ہیں کہ اسی ہفتے میں سعودی عرب میں ریسٹورنٹس اور کافی شاپس عربک کافی کو سعودی کافی کا نام دیں جو ثفاقتی عناصر کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی کوشش ہے، جس سے سعودی شناخت اور اس کے روایات کا اظہار ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ 1973 میں سعودی پرچم میں سفید رنگ میں کلمہ طیبہ لکھا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمدﷺ اللہ کے آخری پیغمر ہیں۔
سعودی پرچم میں کلمہ طیبہ کے نیچے تلوار ہے، اسی طرح مکہ میں دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان زائرین عبادت کے لیے جمع ہوتے ہیں جہاں پیغمبر آخرالزمان ﷺ کی ولادت ہوئی اور وحی نازل ہوئی۔
سعودی عرب کے پرچم اور قومی ترانے کے قانون میں تبدیلی سے متعلق شوریٰ کونسل کی تجاویز صرف سرکاری میڈیا کی جانب سے جاری کی جارہی ہیں جو حتمی منظوری کے لیے فرماں روا شاہ سلمان کے سامنے پیش کی جائیں گی۔
سعودی عرب میں نجی سطح پر میڈیا ادارے موجود نہیں ہیں اور صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کی جبری پالیسیوں کے تحت آزاد میڈیا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
روزنامہ اشرق الاوسط اور سبق کی نیوز سائٹ نے رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ تیزی سے ہونے والی تبدیلیاں حالیہ برسوں میں شاہ سلمان کے منظر سے دور ہونے کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان تبدیلیوں میں وژن 2030 کے اقدامات اور اہداف کے حق میں قانون سازی بھی شامل ہے اور یہ سعودی ولی عہد کے ان ارادوں کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ ملک کی معیشت کا رخ متعین کرنے اور تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے بہتر سمت دینا چاہتے ہیں۔