عمران خان کا ندیم ملک کے ساتھ انٹرویو: پانچ نکات جن پر توجہ ضروری ہے

عمران خان کا ندیم ملک کے ساتھ انٹرویو: پانچ نکات جن پر توجہ ضروری ہے
عمران خان کا ندیم ملک کے ساتھ انٹرویو: پانچ نکات جن پر توجہ ضروری ہے

جہاں سابق وزیر اعظم نواز شریف آئے روز تقاریر اور میڈیا سے بات چیت کر رہے ہیں، ان کی بیٹی مریم نواز بھی بھرپور انداز میں متحرک ہو گئی ہیں، وزیر اعظم عمران خان نے بھی بالآخر میڈیا پر آ کر اس سیاسی ماحول میں اپنی طرف کا ورژن دینے کی کوشش کی ہے۔ سماء ٹی وی پر ندیم ملک کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے سیاسی معاملات پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے نواز شریف کے الزامات پر بھی بات کی، ان پر نئے الزامات بھی عائد کیے اور ساتھ ساتھ اپنے اوپر لگے کچھ الزامات کی صفائی بھی دینے کی کوشش کی۔ اس انٹرویو میں چند اہم ترین معاملات جن پر عمران خان نے بات کی، وہ کچھ اس طرح سے ہیں:

  • جنرل ظہیر الاسلام پر نواز شریف کے الزامات کا جواب


نواز شریف نے 30 ستمبر کو مسلم لیگ نواز کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے 2014 کے دھرنے کے دوران ان سے استعفا طلب کیا تھا لیکن میں نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان نے کہا کہ ایک 22ویں گریڈ کے افسر کی کیسے جرأت ہو سکتی ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم سے استعفا مانگے۔ نواز شریف کی جگہ میں ہوتا تو میں ظہیر الاسلام سے استعفا مانگ لیتا۔ اس موقع پر انہوں نے کارگل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف کے بارے میں بھی نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم کو اعتماد میں لیے بغیر کارگل پر چڑھائی کر دی، میں اگر ہوتا تو جنرل مشرف کو اسی وقت فارغ کر دیتا۔

سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگی رہنما احسن اقبال نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے اس پر جواب دیا ہے کہ عاصم سلیم باجوہ کا دیا ہوا استعفا تو آپ قبول نہیں کر سکے، بڑھکیں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق مار رہے ہیں۔

https://twitter.com/betterpakistan/status/1311747210061676544

تاہم، سامعین کو یہ بتانا یہاں ضروری ہے کہ نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے ان کی جگہ جنرل ضیاالدین کو لگا دیا تھا لیکن جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے منتخب وزیر اعظم کے آئینی حق کے استعمال پر ان کی حکومت کو ہی برطرف کر دیا تھا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جو کہ 9 سال تک برقرار رہا۔ خود عمران خان نے نہ صرف ان کے اس مارشل لا کے نفاذ کا خیر مقدم کیا بلکہ وہ اگلے تین سال تک جنرل مشرف کے ساتھ رہے۔ یہاں تک کہ جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے وقت عمران خان ان کے پولنگ ایجنٹ تک بنے۔

دوسرا موقع ظہیر الاسلام کے استعفے کا تھا تو جس وقت سابق آئی ایس آئی سربراہ نے نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا، اس وقت عمران خان اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کے ساتھ خود وزیر اعظم ہاؤس کے باہر دھرنا دیے بیٹھے تھے، پارلیمنٹ کا دروازہ توڑ چکے تھے اور پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کر چکے تھے۔ وہ اکثر کسی امپائر کی انگلی اٹھنے کا اشارہ بھی دیا کرتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ظہیر الاسلام ہی وہ امپائر تھے۔ یہ الزام درست ہے یا نہیں، ایک بات طے ہے کہ ظہیر الاسلام کا اس وقت استعفا طلب کرنے کا مطلب یہی ہوتا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے باہر کھڑے مجمعے کو اندر آنے کی دعوت دے دی جائے۔ یعنی یوں کہا جائے کہ ظہیر الاسلام سے استعفا طلب کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود عمران خان تھے تو بے جا نہ ہوگا۔

  • مطیع اللہ جان کو ہم نے نہیں اٹھایا


منگل 21 جولائی 2020 کو ملک کے نامور صحافی مطیع اللہ جان کو دن دہاڑے اسلام آباد کے ایک سکول کے باہر سے اغوا کیا گیا۔ یہ ایک سرکاری سکول تھا جہاں مطیع اللہ جان کی اہلیہ پڑھاتی ہیں اور وہ ان کو لینے کے لئے ہی یہاں پہنچے تھے۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کچھ ہی دیر میں منظرِ عام پر آ گئی۔ اس میں پولیس کی گاڑی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ایمبولنس بھی موقع پر موجود ہے۔ ایلیٹ فورس کے جوان بھی اپنی وردیوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان یکم اکتوبر کو یعنی واقعہ ہونے کے ٹھیک دو مہینے دس دن کے بعد فرما رہے ہیں کہ پتہ نہیں کس نے اغوا کیا، میری حکومت کو تو اس سے نقصان ہوا، تو ہم نے تو اغوا نہیں کیا۔ جناب کو یاد دلاتے چلیں کہ آپ یوں خود کو معاملے سے علیحدہ اب نہیں کر سکتے۔ گذشتہ دو سال سے آپ جگہ جگہ بتاتے آئے ہیں کہ آپ ایک صفحے پر ہیں۔ اور آپ کو یہ کیوں نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، کس نے اٹھایا؟ کوئی تفتیش کیوں نہیں ہوئی؟ آپ نے اس کا سراغ لگانے کے لئے کوئی اقدامات کیوں نہیں کیے؟ اگر ملک کا وزیر اعظم یوں لاتعلقی کا اظہار کرنے لگے تو پھر سوال کس سے کیا جائے؟

  • ’این آر او نہیں دوں گا‘


عمران خان صاحب نے کہا کہ نواز شریف باہر سے بیٹھ کر فوج پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ این آر او لینا چاہتے ہیں لیکن این آر او ان کو کسی صورت نہیں ملے گا، میں اپنا عہدہ چھوڑ سکتا ہوں، لیکن ان کو این آر او نہیں دوں گا۔ اس حوالے سے بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا ہے کہ اپوزیشن کو این آر او نہ دینے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان نے عاصم سلیم باجوہ کے کیس کی انکوائری تک نہیں کی۔ جہانگیر ترین کے خلاف چینی کرپشن سکینڈل میں حکومتی رپورٹ آنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ چینی مافیا سے لڑتے لڑتے قیمتیں دگنی کر دیں۔ ادویات مافیا سے لڑتے لڑتے ان کی قیمتوں میں 362 فیصد اضافہ کر دیا، چینی سکینڈل رپورٹ میں خسرو بختیار کا نام بھی ہے، وہ اب بھی کابینہ کا حصہ ہیں، ان کے بھائی پنجاب حکومت کا حصہ ہیں۔ تو پھر این آر او نہ دینے سے ان کی مراد کیا ہے؟ کرپشن پر ان کا بیانیہ ان تمام سکینڈلز نے کمزور کیا ہے اور اب یہ کہنا کہ وہ این آر او نہیں دیں گے، ایک پھوکے سے بیان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

گذشتہ قریب دو ہفتے سے نواز شریف اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں حکومت پر بھرپور تنقید کر رہی ہیں لیکن کسی نے غداری کا الزام کسی پر لگایا بھی تو آئین سے روگردانی کے حوالے سے لگایا۔ جب کہ عمران خان نے پہلے انٹرویو میں ہی مخالفین پر بھارت سے مدد لینے کا الزام لگا دیا۔ یہ غداری کا ٹوٹکا فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، مولوی فضل الحق، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سے ہوتا ہوا آصف زرداری اور نواز شریف تک پہنچا ہے۔ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے سیاستدان اپنے مخالفین پر یہی الزام لگاتے آئے ہیں۔ تاہم، یہ ایک دقیانوسی قسم کی بات سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عمران خان صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ بھارت سے کون سی مدد لی گئی ہے؟ نواز شریف اپنی جماعت سے خطاب کر رہے ہیں، اس کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت اور ایک ٹی وی ہی چاہیے ہوتا ہے۔ ان کی جماعت 1993 سے موجود ہے۔ نہ تو اس میں کوئی پیسے لگتے ہیں کہ بھارت اس میں مدد کرے، نہ ہی یہ کوئی اقوام متحدہ میں کیس چل رہا ہے کہ بھارت دیگر ممالک پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے نواز شریف کے حق میں قراردادیں منظور کروا رہا ہو۔ فوج کے جن عہدیداروں پر انہوں نے تنقید کی ہے، ان کے اوپر الزامات ایک سابق جج اور ایک سینیٹر نے لگائے ہیں۔ انہی الزامات کو نواز شریف نے دہرایا ہے۔ فوج ایک ریاستی ادارہ ہے۔ یہ کوئی ایک فرد نہیں کہ جس پر تنقید پوری فوج پر تنقید سمجھی جائے۔ یہ بھی یاد رہے کہ مولانا عبدالغفور حیدری اور شوکت صدیقی کے الزامات کی کوئی تردید آج تک منظرِ عام پر نہیں آئی ہے۔

  • ’جنرل مشرف کو کارگل جنگ پر عہدے سے الگ کر دیتا‘


وزیر اعظم نے کہا کہ اگر جنرل مشرف انہیں بتائے بغیر کارگل میں جنگ کا آغاز کرتے تو وہ انہیں عہدے سے فارغ کر دیتے۔ یہاں آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ گذشتہ دنوں جب نیوز ون کے ایک پروگرام میں غریدہ فاروقی نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید سے پوچھا تھا کہ عمران خان صاحب گلگت بلتستان پر ہونے والے اجلاس میں کیوں شریک نہیں تھے تو شیخ رشید کا جواب تھا کہ ہو سکتا ہے عمران خان کو بلایا ہی نہ گیا ہو۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.