ملک کے سینیئر تحقیقاتی صحافی انصار عباسی نے چائے کی پیالی کو ترستی اپوزیشن کے نام سے ایک کالم لکھا ہے اور اس میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن جس کا نعرہ جمہوریت کی بالادستی، ووٹ کو عزت اور عوام کی سربراہی ہے وہ کس طرح سے مقتدرہ کی جانب ایک اشارہ کے لئے ترستے ہیں۔
انہوں نے ن لیگ پر سنگین الزام عائد کرتے لکھا ہے کہ ن لیگ کے بارے میں یہ تاثر حالیہ برسوں میں پیدا ہوا کہ بہت اصول پسند ہو چکی، ماضی سے بہت کچھ سیکھا لیکن جب ان کو اندر سے ٹٹولیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج اس پارٹی کے اکثر رہنما بڑے بے چین ہیں کہ کیسے طاقت سے ٹوٹا رشتہ دوبارہ استوار کیا جائے؟ پارٹی کے جس رہنما سے ادارے رابطہ کرتے ہیں وہ ن لیگ میں اہم ہو جاتا ہے۔
نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں لیکن ن لیگ میں بھی سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب اور مریم نواز بھی اداروں سے رابطہ میں ہیں، اُنہیں پیغام بھی ملتے ہیں اور پیغام لانے والوں کی ن لیگ میں عزت بھی ہے۔
پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے اور اس سلسلے میں آصف علی زرداری صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔ بلاول جتنی مرضی اچھی تقریریں کر لیں، بعض اوقات بولڈ بیانات بھی دے دیتے ہیں لیکن جب وقتِ امتحاں آتا ہے تو پیپلز پارٹی وہی کرتی ہے جس کی اب تو اس سے توقع ہو چکی ہے اور اس پر بلاول خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔