'پڑھا لکھا جاہل' کی اصطلاح اکثر ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جن کے پاس الفاظ کا ذخیرہ تو ہوتا ہے اور اس سے منظم اور مربوط جملے بھی بنا لیتے ہیں لیکن ان کے پاس علم نہیں ہوتا، وہ حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔ چاہے یہ لوگ بہت اچھی پنجابی، یا انگریزی یا عربی لکھ سکتے ہوں اور عام لوگوں پر لفاظی کی دھاک بھی بٹھا سکتے ہوں۔ صرف زبان جاننا کافی نہیں ہوتا۔ اس علم نما جہالت کیلئے جہلِ مرکب یا شبہ علم ( Pseudoscience) کی اصطلاحات رائج ہیں۔
اس جہالت کی واضح ترین مثال علومِ غریبہ ہیں، جن کی مدد سے لوگوں کو اعداد یا حروف یا ستاروں کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اب جبکہ انٹرنیٹ کی ایجاد نے ایسے جہلائے مرکب کے ہاتھوں میں نشر و اشاعت کے جدید وسائل بھی تھما دیے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ جہلِ مرکب کیا ہے۔ ذیل میں اس موضوع پر معروف سائنسی مفکر پروفیسر ماریو بُنگے کے ایک مقالے (What Is Pseudoscience?) کے پہلے حصے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پورے مقالے میں دلچسپی رکھنے والے طالب علموں کو چاہئیے کہ انگریزی نسخہ انٹرنیٹ سے ڈاوٴن لوڈ کر کے کسی کاپی پر اس کا خلاصہ تیار کریں۔
سوڈو سائنس کیا ہے؟ (پروفیسر ماریو بُنگے)
بہت سے فلسفیوں نے علم اور شبہ علم میں فرق کرنے والی ایک خصوصیت ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ نے کسی نظریے پر اہلِ علم کے اجماع کو اس کے علمی ہونے کی دلیل کہا ہے تو کچھ نے تجرباتی تائید کو وہ صفت قرار دیا ہے۔ کچھ نے حقائق کو سمجھنے میں کامیابی کو کسوٹی مانا ہے تو کچھ ابطال پذیری کو معیار سمجھتے ہیں۔ بعض نے علمی طریقہ کار کی پابندی کو علم اور شبہ علم میں فرق کی بنیاد بنایا ہے۔ بات کو سادگی سے کم لفظوں میں سمیٹنے کی یہ سب کوششیں ناکام رہی ہیں۔
علم بہت پیچیدہ مظہر ہے اور اسے ایک واحد صفت کی مدد سے شبہ علم سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح جہلِ مرکب بھی اتنا سادہ نہیں کہ آسانی سے پکڑائی میں آ جائے۔ جیسا کہ کسی دھات کے ٹکڑے کی فقط چمک یا رنگت کی بنیاد پر اس کو اصلی یا نقلی سونا قرار دینا ممکن نہیں ہوتا بلکہ ان کے علاوہ بھی کچھ آزمائشیں کرنی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں علم کے کسی شعبے کو بھی متعدد امتحانوں سے گزارنا چاہئیے تاکہ ہم اس کے حقیقی علم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکیں۔
ہم سائنس اور سوڈو سائنس کو معرفت کے دو مختلف میدانوں کے طور پر پرکھیں گے تاکہ ان کے حقیقت یا سراب ہونے کی فہم حاصل کر سکیں۔ معرفت کے میدان سے مراد کسی علم کے حصول اور اس کو وسعت دینے یا استعمال میں لانے کیلئے انسان کی کوشش ہے، چاہے یہ حقیقی علم ہو یا علم کے نام پر دھوکہ ہو۔ موجودہ ثقافتوں میں علم کہلانے والی سینکڑوں چیزیں موجود ہیں۔ ایک طرف منطق ہے تو دوسری طرف مذہبی فلسفے کے مباحث ہیں، ایک طرف ریاضی ہے تو ساتھ علم الاعداد بھی ملتا ہے، فلکیات ہے تو جنتریوں والا علمِ نجوم بھی ہے، کیمسٹری اور الکیمی، نفسیات اور مابعد نفسیات، جامعہ شناسی بمقابلہ حضوری سماجیات، وغیرہ وغیرہ۔
معرفت کے میدان
علم کا کوئی شعبہ سچائی یا طاقت، فہم یا قبولیت تک پہنچنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو سکے، اس کی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اس میں اور باقی علوم میں مشترک ہوتی ہیں۔ یہ دس کا گروہ ہیں:
E = (C, S, D, G, F, B, P, K, A, M)
یہاں:
E سے مراد علم کا شعبہ یا میدان ہے۔ یہ دس ارکان سے تشکیل پاتا ہے:
C سے مراد اہلِ علم کا حلقہ (Cognitive community)،
S سے مراد وہ معاشرہ جس میں وہ اہلِ علم رہتے ہیں (Society hosting C)،
D سے مراد معرفت کے میدان کا موضوع ہے (Domain or universe of discourse of E, the object E is about)،
G سے مراد ان اہلِ علم کا تصورِ کائنات ہے (General outlook or worldview or philosophy of the C’s)،
F سے مراد اس علم کا ڈھانچہ ہے، یعنی اس علم میں استعمال ہونے والے منطقی اور ریاضیاتی طریقے (Formal background: logical and mathematical tools employable in E)،
B سے مراد اس علم کا پس منظر ہے، یعنی وہ مفروضے جو کسی اور علم سے لے کر اس علم کے موضوع کی تشکیل کی گئی ہے (Specific background, or set of presuppositions about D borrowed from fields of knowledge other than E)،
P سے مراد وہ سوال ہیں جن کا جواب یہ علم دیتا ہے (Problematics, or set of problems E may handle)،
K سے مراد معلومات کا وہ خزانہ ہے جو اس علم نے پیدا کیا ہے (Specific fund of knowledge accumulated by E)،
A سے مراد اہلِ علم کے اپنے شعبے میں کام کرنے کے اہداف و مقاصد ہیں (Aims or goals of the C’s in cultivating E)،
M سے مراد تحقیق کا اسلوب (Methodics or collection of methods utilizable in E) ہے۔
معرفت کے میدان کسی ہموار خطے میں نہیں ہیں۔ درحقیقت معرفت کے میدانوں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے میدان اور دوسرا ایمانیات کے میدان۔ اگرچہ تحقیق کے میدانوں میں نئی تحقیق کی روشنی میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے، ایمانیات کے میدان میں تبدیلی یا تو وحی کے ذریعے آ سکتی ہے، یا کسی تنازعہ کی صورت میں اور یا طاقت کے اندھا دھند استعمال سے لوگوں کا عقیدہ بدلا جاتا ہے۔ یہ تقسیم تصویری شکل میں نیچے دی جا رہی ہے:
علم
اب ہم علم کی تعریف کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ علم کا کوئی شعبہ، جیسے طبیعات، حیاتیات یا جامعہ شناسی، ہمارا معرفت کا میدان E ہے۔ یعنی: E = (C, S, D, G, F, B, P, K, A, M)
جبکہ:
1. E کے سب ارکان آزاد تحقیق کی وجہ سے ارتقاء پذیر ہوتے ہوں، چاہے یہ تبدیلی آہستہ ہوتی ہو۔ یہ تبدیلی اسی میدان میں ہونے والی تحقیقات کے علاوہ دوسرے متعلقہ میدانوں میں ہونے والے کام سے بھی متاثر ہوتی ہو۔
2. C، یعنی اس کا علمی حلقہ، تربیت یافتہ اور متخصص شخصیات پر مشتمل نظام ہو جس میں پائیدار رابطوں کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہو اور وہ تحقیق کی روایت کا آغاز کرنے اور اسے جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
3. معاشرہ، S، جس میں وہ اہلِ علم اپنا کام کرتے ہیں، وہ ان کے کام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، یا کم از کم اسے برداشت کرتا ہے۔
4. علم کا موضوع، D، خارجی حقائق تک محدود ہوتا ہے، چاہے ماضی کے ہوں، یا حال و مستقبل سے تعلق رکھتے ہوں۔
5. اس علم کی کلی تصویر اور فلسفہ، G، ایک تو یہ کہتا ہے کہ حقیقی دنیا ایسے واقعی مظاہر سے تشکیل پاتی ہے جن میں کچھ ضوابط کے تحت تبدیلیاں آتی ہیں اور ایسا نہیں کہ عالم ایسی چیزوں سے تشکیل پایا ہو جو بدل نہ سکتی ہوں یا بدلیں تو کسی ضابطے کے بغیر غیبی طاقتوں کی وجہ سے بدلتی ہوں۔ دوسرے اس کی علمیات، یعنی علم کا تصور، حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں شفافیت، دقیق ہونا، گہرائی، تسلسل و ثبات اور سچائی جیسی اقدار پائی جاتی ہیں اور اس تصورِ کائنات میں سچائی کی آزادانہ تلاش کی روح پائی جاتی ہے۔
6. علم کا ڈھانچہ، F، جدید منطقی اور ریاضیاتی اصولوں سے تشکیل پاتا ہے۔ نہ تو کھوکھلا ہوتا ہے اور نہ ہی فرسودہ منطق اور قدیم ریاضی میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔
7. علم کے بنیادی مفروضے، B، عصری پیشرفت سے ہم آہنگ، معقول اور تصدیق شدہ معلومات اور نظریات سے تشکیل پاتے ہیں جو معرفت کے متعلقہ میدانوں سے مستعار لیے گئے ہوتے ہیں۔
8. علم جن سوالوں کا جواب ڈھونڈتا ہے، P، وہ موضوع، D، کی طبیعت کے اصولوں کی شناخت پر تمرکز کے ساتھ E میں موجود باقی چیزوں تک محدود ہوتے ہیں۔
9. علم کا پیدا کردہ معلومات کا خزانہ تازہ اور قابلِ تصدیق نظریات، معلومات اور مفروضات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جو علم کے بنیادی مفروضوں، B، کے ساتھ اور E کے باقی ارکان سے سازگار اور موافق ہو چکا ہوتا ہے۔
10. اہلِ علم کا مقصد، A، علم کے موضوع، D، کے قوانین کی دریافت اور ان کا استعمال ہوتا ہے۔ نیز مفروضوں کو منظم انداز میں آگے بڑھا کر پختہ نظریات بنانا اور تحقیق کے طریقوں، M، کی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔
11. تحقیق کا طریقۂ کار یا اسلوب، M، صرف قابلِ فہم اور قابلِ توجیہ روش پر مبنی ہوتا ہے۔ صرف انہی طریقوں تک محدود رہا جاتا ہے جن کے درست ہونے کو پرکھا جا سکے، ان کا تجزیہ کیا جا سکے اور ان پر تنقید کی جا سکے۔
12. E ایک وسیع علمی افق سے تعلق رکھتا ہو، یعنی اس کے علاوہ تحقیق کا کم از کم ایک اور ایسا میدان، É، ہو کہ:
(الف) اس کا تصورِ کائنات، اس کے منطقی اور ریاضیاتی اصول، اس کے بنیادی مفروضے، اس کی پیدا کردہ معلومات، اس کے مقاصد اور اس کا اسلوبِ تحقیق اس سے کسی حد تک ملتا ہو اور
(ب) یا تو ان دونوں کے موضوعات میں کوئی ربط ہو یا اس کے موضوعات دوسرے میدان کے ارکان میں آتے ہوں۔
کوئی تحقیق کا میدان جو ان 12 شرائط کو پورا نہ کرتا ہو اسے غیر علمی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال مذہبی فلسفے یا ادب پر تنقید کا کام ہے۔ اور کوئی ایسا معرفت کا شعبہ جو علمی نہ ہو مگر اسے علم قرار دیا جا رہا ہو تو وہ جہلِ مرکب ہو گا۔ قاری کو خود اپنے پسندیدہ علم کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہئیے کہ وہ ان 12 شرائط پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟
اہل علم اور جہلائے مرکب کے عمومی رویے اور سرگرمیاں
حوالہ جات
1. Mario Bunge, “What Is Pseudoscience?”, The Skeptical Inquirer, Vol. 9, No. 1, pages 36–46, (1984).