پاکستان کے 2 آرمی چیف 3 بار مارشل لا لگانے سے انکار کر کے امریکی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں

پاکستان کے 2 آرمی چیف 3 بار مارشل لا لگانے سے انکار کر کے امریکی خواہش کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں
نوٹ: نیادور اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

چین جیسی ابھرتی ہوئی نئی عالمی طاقت سے سہما ہوا اور سی پیک کو ہضم کرنے سے انکاری پینٹاگون اس خطے میں اپنے اہداف کے حصول کے لئے پاکستان میں مارشل لا لگوانے کے لئے سی آئی اے کو متحرک کر چکا ہے۔ لیکن، پاکستان کے 2 آرمی چیف 3 بار مارشل لا لگانے سے صاف انکار کر کے امریکی خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں۔ پہلے سابق آرمی چیف راحیل شریف نے کور کمانڈرز کے دباؤ کے باوجود ملک کا نظم و نسق سنبھالنے سے انکار کیا جبکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی 2 بار مارشل لا لگانے کی رائے رد کر چکے ہیں۔

جنرل باجوہ نے ملک میں مارشل لا لگانے سے دوسری یعنی اب تک آخری بار انکار کور کمانڈرز کے اس ہنگامی اجلاس میں کیا جو سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت قائم مقدمے میں خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے فوری بعد بلایا گیا تھا۔

باخبر ذرائع کے مطابق عدلیہ کی طرف سے فوج کے لئے یہ یکسر خلاف توقع اور shocking فیصلہ آنے کے فوری بعد طلب کی گئی اس ہنگامی کور کمانڈرز کانفرنس میں جرنیلوں نے پورے شدومد کے ساتھ مخالفت کرتے ہوئے اس "روایت شکن" اور "روایت ساز" فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے ادارے کے مورال کے خلاف ایک اہم واقعے، حتیٰ کہ "جوڈیشل کو" سے تعبیر کیا۔

شرکا کی اکثریت نے ملک میں فوری طور پر مارشل لا نافذ کر کے اقتدار سنبھال لینے کی رائے دی، تاہم آرمی چیف جنرل باجوہ نے دو ٹوک اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک میں جمہوری نظام ہر صورت جاری رکھا جائے گا اور فوج سسٹم کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ ایسا ہی ایک موقع سابق وزیراعظم نواز شریف کے گذشتہ دور حکومت میں آیا تھا، ملک میں عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں نئی منتخب جمہوری حکومت قائم ہونے کے 1 سال بعد ہی اسلام آباد کے ڈی چوک میں کروایا جانے والا تاریخی دھرنا جب اپنے جوبن پر تھا اور جس روز بُلوائیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی سینٹر پر ہلہ بولا تھا، اس رات جرنیلوں کی اکثریت کی طرف سے ملکی نظم و نسق سنبھال لینے کے لئے دباؤ بڑھا تھا۔ مگر، اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمہوری نظام کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کی بنا پر اسے مسترد کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگانے سے انکار کر دیا تھا۔

اسی طرح جنرل باجوہ نے بھی حالیہ دنوں میں پے در پے 2 مواقعوں پر ٹیک اوور کے لئے سخت دباؤ پر مزاحمت کرتے ہوئے جمہوری سسٹم کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں پہلی بار جنرل باجوہ پر دباؤ ان کی اپنی ایکسٹینشن کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے روز اور دوسری مرتبہ چند روز بعد ہی خصوصی عدالت کی طرف سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد، جب فوجی قیادت پر مارشل لا لگا کر ان تمام developments کو فی الفور غیر مؤثر کر دینے کے لئے شدید دباؤ تھا۔

اگرچہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے فوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لیتے ہی سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جی ایچ کیو میں یہ ڈاکٹرائن متعارف کروا دی تھی کہ فوج اب فرنٹ پہ نہیں آئے گی۔ بلکہ، پس پردہ رہ کر پارلیمان، پریزیڈنسی اور ایوان وزیراعظم سمیت تمام جمہوری و دیگر ریاستی اداروں پر مزید کنٹرول حاصل کیا جائے گا۔ اتنا زیادہ کہ مارشل لا لگانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔

براہ راست آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے انٹیلیجنس چیف جنرل کیانی نے کمان سنبھالتے ہی پہلا "آرڈر آف دا ڈے" بھی سول اداروں سے فوجی افسران کی واپسی کا جاری کیا تھا۔ البتہ ان کی ڈاکٹرائن کو ان کے جانشین جنرل راحیل شریف نے اتنی شدومد سے آگے بڑھایا کہ ملکی و عالمی میڈیا میں فوج کے "soft coup" کی باتیں عام ہونے لگیں۔

جنرل راحیل شریف نے تو ذاتی اور فوج کی امیج بلڈنگ کی غرض سے فوج کے میڈیا سیل یعنی تعلّقات عامہ کے شعبے ( ISPR) کو پوری کور میں بدل کے رکھ دیا تھا، جس کے انچارج میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کو لیفٹیننٹ جنرل بنا کر وہیں تعینات رکھا گیا۔ خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ خطے میں اپنے چند اہم اہداف، بالخصوص سی پیک جیسے ممکنہ گیم چینجر منصوبے کے حوالے سے فوجی قیادت کی طرف سے کوئی لچک نہ دکھانے پر اپنے اصل اتحادی یعنی جی ایچ کیو کے رویے سے مایوس ہو کر امریکہ نے پاکستان میں شدید داخلی انتشار اور سیاسی و سماجی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ تاکہ موجودہ جمہوری سسٹم کو لپیٹ کر one man rule (فرد واحد کی حکمرانی) لائی جا سکے۔ اس لئے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے محفوظ انخلا، آزاد متوازی اسلامی بلاک قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کو یقینی بنانے اور سی پیک رول بیک کروانے سمیت چین کے خلاف مؤثر مورچہ بندی سمیت خطے میں امریکی اہداف کے حصول کی کوششوں میں مؤثر پیش رفت عمل میں لانا ممکن ہو۔

اس سلسلے میں پہلا قدم اہم ترین اور طاقت کی تکون میں شامل ریاستی اداروں کے مابین تصادم کی صورتحال پیدا کرنا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں مارشل لا کی صورت میں یک شخصی اقتدار عمل میں آ سکے۔ اس لیے کہ اپنی بات منوانے اور اہداف حاصل کرنے کے لئے مختلف اداروں کی جگہ فرد کی ذات ہی ساری طاقت یعنی کلی اقتدار و اختیار کا محور و مرکز ہو تو امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کے لئے آئیڈیل صورتحال ہوتی ہے۔