مسلم لیگ ن کی گذشتہ روز آرمی ایکٹ بل کی غیر مشروط حمایت کے بعد حکومت کا یہ خیال تھا کہ یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر آج ہی پارلیمان سے منظور کروا لیے جائیں گے۔ تاہم حزب مخالف کی جماعتوں نے جمعے کی صبح قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل حکومتی کمیٹی سے ہونے والی اجلاس میں اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور یہ موقف پیش کیا کہ اس معاملے میں پارلیمانی قواعد و ضوابط کی پیروی کی جائے۔ جس کے بعد قومی اسمبلی نے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق الگ الگ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھیج دیے ہیں۔
مجوزہ قانون سازی کے تحت تینوں سروسز چیفس (آرمی چیف، فضائیہ چیف اور نیوی چیف) کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سے بڑھا کر 64 برس کرنے کی تجویز ہے جبکہ یہ صوابدیدی اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہو گا کہ وہ 60 برس کی ملازمت پوری کرنے والے ان افسران میں سے کسی بھی افسر کی مدتِ ملازمت میں توسیع کر دیں۔
اس وقت ن لیگ کی سیاست شہباز شریف کا بیانیہ ہے، جس کے ذریعے پنجاب کی بڑی جماعت ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھی سے ایوان اقتدار میں داخل ہونا چاہتی ہے، اگر ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے قریب آتی ہے تو تحریک انصاف کی حیثیت کم ہوتی ہے۔ شہباز شریف کا بیانیہ شریف فیملی کو لندن منتقل کرنے اور رانا ثنااللہ کو جیل سے باہر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ رانا ثنااللہ جن کو عمران خان مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں طویل عرصے تک ڈالنے کے خواہش مند تھے، اب وہ آزاد ہیں اور آرمی چیف قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر اپنی جماعت کی غیر مشروط حمایت کی پریس کانفرنسز کر رہے ہیں۔
شہباز شریف کے گڈ کوپ کے کردار اور اسٹیبلشمنٹ فرینڈلی بیانیے سے شریف فیملی کو ریلیف اور آسائشیں مل رہی ہیں، اور اقتدار ملنے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، مگر ساتھ ہی پارٹی کے اندر اور سپورٹرز کی طرف سے اس پالیسی پر شدید تنقید بھی کی جارہی ہے، سوشل میڈیا اس تنقید سے بھرا پڑا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کہہ رہے ہیں کہ اب ن لیگ کا بیانیہ ووٹ کو عزت دو، نہیں بلکہ بوٹ کو عزت دو کا بن چکا ہے۔ پارٹی کارکنان کی مایوسی اور تنقید کے بعد میاں نواز شریف کا خواجہ آصف کو لکھا ایک خط میڈیا میں آیا ہے، جس میں انھوں نے خصوصی ہدایات دی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے جمعہ کو پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن سے شکوہ کیا کہ ہمیں بڑی اپوزیشن جماعت نے اپنے اس بل کی غیر مشروط حمایت کے فیصلے سے آگاہ نہیں کیا اور اگر ایسا کر دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آرمی ایکٹ بل پر موقف واضح ہے کہ ان کے پاس صرف 52 ووٹ ہیں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ نہ تو ’کامہ‘ لگا سکتے ہیں نہ ہی ’فل اسٹاپ‘۔ حکومت ان کے بغیر بھی بل پاس کر سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حمایت کیلئے پارلیمانی طریقہ کار اپنانا ہو گا۔ معاملے پر پارلیمانی طریقے پر چلنا کامیابی ہے۔ اہم بل بھی پارلیمانی طریقہ کار کے بغیر پاس ہوں گے تو نقصان ہو گا۔ پی ٹی آئی حکومت نے کابینہ سے آرمی ترمیمی ایکٹ منظور کیا۔ معلوم نہیں حکومت کو کیا جلدی تھی۔
قبل ازیں، چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے چیمبر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ بل کو پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق لایا جانا چاہیے، ہم پھر سے وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو نوٹیفکیشن کے وقت کی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس بل کو پارلیمانی پارٹی کے قوائد و ضوابط کے مطابق لایا جانا چاہیے، ن لیگ اور پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ پارلیمانی طریقہ کار ایک طرف رکھ کر بل پاس کیا جائے، اس سے نہ صرف ہمارے بلکہ پاک فوج کے ادارے کو بھی نقصان ہوگا اور ہم ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نازک معاملہ ہے، ہم سیاست نہیں کرنا چاہتے، بلکہ اپنا جمہوری کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، حکومت اور حزب اختلاف ہماری حمایت چاہتے ہیں تو پارلیمانی طریقہ کار اپنائیں۔ حکومت سے امید ہے کہ بل کو دفاع کی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز حکومت کے ایک وفد نے پرویز خٹک کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات بھی کی تھی۔ ملاقات کے بعد چیئرمین بلاول نے ٹویٹ کیا تھا کہ ہمارے لیے قانون سازی کی جتنی زیادہ اہمیت ہے، اتنا ہی ضروری جمہوری عمل پر عمل پیرا ہونا ہے، پیپلز پارٹی اس مسئلے کو دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی اٹھائے گی۔
انہوں نے لکھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں قانون سازی کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھنا چاہتی ہیں۔ جتنی اہم قانون سازی ہے، اتنا ہی اہم ہمارے لئے جمہوری عمل کی پاسداری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اس معاملے پر دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔