تحریک انصاف کی حکومت جس قدر تیزی سے قدرو منزلت کھو رہی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ تین ہفتوں میں ہی ساری بات کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ کیا ہوا تھا؟ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ سب واضح ہو کر سامنے آ رہا ہے۔ معاملات کا آغاز عمران خان کی قومی اسمبلی میں جلالی تقریر سے ہوا۔ کہا یہ گیا کہ عمران خان کو طیش آ گیا اور وزیر اعظم پاکستان نے وہ کچھ بولنا شروع کیا جو اپوزیشن کے لیڈر جلسوں میں بولتے ہیں۔ دلیل دینے والوں نے بات کو اس طرح سنبھالنے کی کوشش کی کہ اپوزیشن کے رویے کی وجہ سے خان صاحب غصہ میں آ گئے تھے۔ عاقلوں کو خطرہ پڑ گیا کہ کہیں کل کو خان صاحب کسی محاذ جنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے طیش میں آ گئے تو اچانک ایٹم بم چلانے کے درپے ہی نہ ہو جائیں۔ بعد میں حلیف بھلے دلیلں دیتے رہیں کہ دشمن ملک نے خان صاحب کو غصہ بہت دلا دیا تھا، اس وجہ سے ایٹم بم چل گیا ورنہ خان صاحب دل کے تو بہت اچھے ہیں، بس ذرا غصے کے تیز ہیں۔
حماقت در حماقت کے یہ جو تین ہفتے گزرے ہیں ان میں کس کس بات کا ماتم کیا جائے؟ کس کس بات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے؟
وفاق میں وہ نئی اور جواں سال کابینہ چنی گئی جو اس سے پہلے بھی جنرل مشرف چن چکے تھے۔ آزمائے ہوؤں کو آزمانے کے خلاف تو تحریک انصاف تھی تو پھر یہ کیسا بوسیدہ انقلاب آ گیا کہ جس کی چمک پہلے سے ماند ہو گئی؟ وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعیناتی کا ذکر کیا جائے کہ جن کی کل قابلیت یہ ہے کہ ان کے گھر میں ایم پی اے ہونے کے باوجود بھی بجلی نہیں تھی یا ان کی لاجواب انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے کہ جن کا نام و نشان تک ماضی میں کہیں نہیں ملتا۔ فیاض چوہان کی ثقافت پر غلیظ گفتگو کی بات کی جائے یا صحافیوں کو دی جانے والی گالیوں کی بات کی جائے یا پنجاب کے وزیر خزانہ کے علم کی تعریف کی جائے کہ جن کی تعلمی قابلیت صرف بی کام ہے۔ یا پنجاب کے تعلیم کے وزیر کی تعریف کی جائے جو اسی شعبے میں کاروبار کرتے ہیں اسی شعبے کے وزیر محترم قرار پائے ہیں۔ ان کی تعیناتی خان صاحب کے ان زریں اصولوں کے عین برخلاف ہے جس میں فرمان جاری کیا جاتا تھا کہ سیاست دان کاروبار نہیں کر سکتے کیونکہ اس طرح کرپشن کو فروغ ملتا ہے۔ پاک پتن سرکار کے اشارے پر ڈی پی او کی بے عزتی کا معاملہ ہو یا ہیلی کاپٹر کی سواری کا۔ ناتجربہ کاری اپنے عروج پر ہے۔
بھاڑ میں جائیں وہ ڈھائی کروڑ ان پڑھ بچے جن کا رونا ہر وقت رویا جاتا تھا
اگر ہر معاملہ ٹاسک فورس نے ہی حل کرنا ہے تو اسمبلی، پارلیمان کو آگ لگا دینی چاہیے اور ایک ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ٹاسک فورسز کے مشترکہ دفتر کو جمہوریت کا نام دے دینا چاہے۔ ٹاسک فورسز کے مسلسل انتباہ کی بنیادی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ معاشی پلان ہے۔ نہ سماجی بہتری کا کوئی منصوبہ ہے نہ عوامی فلاح کا کوئی ارداہ ہے۔ نہ تعلیم کی صورت حال بدلنے کے لئے کوئی پیش بندی ہے نہ غربت کے خاتمے کا کوئی انقلابی اقدام ہے۔ بس ایک وزیر اعظم بننے کی خواہش تھی سو وہ اب پوری ہوگئی ہے۔ اب بھاڑ میں جائیں وہ ڈھائی کروڑ ان پڑھ بچے جن کا رونا ہر وقت رویا جاتا تھا۔ اب بھول جائیں ان غریبوں کو جو گندہ پانی پینے سے مر جاتے تھے۔ اب بھول جائیں اس قبضہ مافیا کو جو وزیراعظم کے اردگرد اب بھی منڈلا رہا ہے۔ مانا کہ انتخابی نعروں اور حقیقت حال میں فرق ہوتا ہے مگر اتنا تضاد تو کسی نے نہیں سوچا تھا۔ تین ہفتوں میں اتنا فساد تو کسی نے نہیں سوچا تھا۔
شیخ رشید بمقابلہ حنیف گل
ہزیمت اور عبرت کی ان داستانوں میں ایک قصہ دست راست، وزیر ریلوے، جناب شیخ رشید اور ریلوے کے چیف کمرشل مینجر حنیف گل کا ہے۔ حنیف گل ریلوے کے ایک نہایت قابل آفیسر ہیں۔ ان کا تعلق کے پی کے گاؤں بچہ بانڈی، تحصیل اوگی، ضلع مانسہرہ سے ہے۔ یہ اس علاقے کے باسی ہیں جہاں آج بھی بجلی نہیں ہے اور اب تک دور دور تک کوئی پرائمری سکول نہیں ہے۔ حنیف کے والدین بھی بہت پڑھے لکھے نہیں۔ اس کے باوجود اپنی محنت کے بل بوتے پر انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی سے ریلوے سسٹم انجینیئرنگ میں ماسٹرز کیا۔ ایم آئی ٹی سے اربن اور ریجنل پلاننگ میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔ یہ اس سے پہلے محکمہ ریلوے میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کوئٹہ اور پشاور رہ چکے ہیں۔ وزیر ریلوے نے جب چارج سبھالا تو اپنے پورے کروفر سے ریلوے افسران کو طلب کیا۔ پہلی بریفنگ پچیس اگست کو ہوئی۔ جس میں جب افسران نے ریلوے کے محکمے میں ہونے والی ترقی سے شیخ صاحب کو آگاہ کرنا چاہا تو وزیر موصوف نے انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ "مجھے رضیہ بٹ کے ناول نہ سنائیں"۔ چھبیس تاریخ کو اتوار کے روز ایک دفعہ پھر بریفنگ طلب کی گئی، تمام افسران کو ایک دفعہ پھر لائن حاضر کر دیا گیا۔ اس دفعہ بریفنگ دینے کا قرعہ فورتھ کامن کے سینیئر بیوروکریٹ اشفاق خٹک کے نام نکلا۔ خٹک صاحب جی ایم ریلوے کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد فاٹا یونورسٹی کے وائس چانسلر قرار پائے۔ ان کو خواجہ سعد رفیق بڑے احترام سے اس شعبے میں واپس لائے تھے۔ یہ بہت باعزت اور ایماندار آفیسر مانے جاتے ہیں۔ جیسے ہی خٹک صاحب نے شیخ رشید کو اپنی پریزنٹیشن دینا شروع کی تو شیخ صاحب ہر دوسرے جملے کے بعد کہنے لگے "مجھے یہ کہانیاں نہ سنائیں آگے چلیں، آگے چلیں" جب اشفاق خٹک آگے بڑھے اور سی پیک کے حوالے سے محکمہ ریلوے کی اہمیت بتانے لگے تو شیخ صاحب نے فرمایا "چائنا کو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے؟ میں ریشم کا سب سے بڑا بیوپاری ہوں، میری ساری زندگی چین میں گزری ہے" سٹینڈرڈ گیج اور براڈ گیج کے ذکر پر شیخ صاحب نے کہا اب یہ ریلوے لائن سٹینڈرڈ گیج پر بنے گی۔ شیخ صاحب کو یہ علم نہیں تھا کہ اس ذرا سی تبدیلی سے ریلوے کا سارا نظام بدلنا پڑے گا۔ پٹریاں، ٹرینیں، کانٹے سب کچھ بدلنے پڑیں گے جو ممکن نہیں۔ اشفاق صاحب نے بارہا یقین دلایا کہ یہ ان کا فیصلہ نہیں ہے یہ فیصلہ پارلیمنٹ میں ہو چکا ہے۔ اسی دوران خواجہ سعد رفیق کے دور میں ہونے والی ترقی کا ذکر آ گیا اس پر شیخ صاحب کا لہجہ مزید توہین آمیز ہو گیا۔ حنیف گل جو اشفاق خٹک کو اپنا استاد مانتے تھے اس موقعے پر نہ رہ سکے اور وزیر موصوف سے لہجے کی تلخی کم کرنے کی التماس کی جس پر شیخ صاحب نے ان کو شٹ اپ کہہ دیا، جس کے جواب میں حنیف گل نے بھری محفل میں وزیر کو "یو شٹ اپ" کہا اور میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے۔
حنیف گل کوئی مسلم لیگی کارکن نہیں
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حنیف گل کبھی بھی مسلم لیگ ن کے حامی نہیں رہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ تحریک انصاف کو پسند کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ خود بھی کرکٹر بننا چاہتے تھے اور عمران خان کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔ بچپن میں شوکت خانم کے لئے چندہ انہوں نے اکھٹا کیا ہوا ہے اور تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں لاہور میں اس کے حوالے سے کام بھی کرتے رہے ہیں۔
یہ پوری تحریک انصاف کی توہین کی ہے
شیخ صاحب نے جو حنیف گل کو شٹ اپ کہا ہے تو یہ توہین کسی ایک شخص کی نہیں ہے یہ پوری تحریک انصاف کی توہین کی ہے۔ شوکت خانم کے لئے گلی گلی چندہ جمع کرنے والوں کی توہین کی ہے۔ یہ توہین تحریک انصاف کے مخلص کارکنوں کی کی گئی ہے۔ یہ توہین پوری بیوروکریسی کی کی گئی ہے۔ جس رعونت سے آج تحریک انصاف کی حکومت لوگوں کے جذبات کو شٹ اپ کہہ رہی ہے وہ وقت دور نہیں جب عوام کی طرف سے "یو شٹ اپ" کی ایک واشگاف آواز آئے اور اس وقت کوئی اس آواز کو رضیہ بٹ کی کہانی نہیں کہہ سکے گا۔