https://twitter.com/realrazidada/status/1224726563255660546?s=20
یاد رہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم پر کڑی تنقید ہورہی ہے جبکہ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی بھی لمبی رخصت پر جا چکے ہیں، اطلاعات کے مطابق ان کے مشیر خزانہ سے اختلافات چل رہے تھے۔
اس حوالے سے اینکر پرسن کامران خان کا اپنے پروگرام میں کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے یقیناً یہ بڑا دھچکا ہے کہ ان کی معاشی ٹیم کے اہم رکن چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی شدید علالت کے باعث طبی بنیاد پر غیر معینہ مدت تک چھٹیوں پر چلے گئے ہیں،ہمیں نہیں پتا کہ وہ کتنے عرصہ تک غیرحاضر رہیں گے۔ اس وقت ایف بی آر ایک بڑے کٹھن مرحلہ میں ہے ۔ٹیکس وصولیوں کے ٹارگٹ کو پورا کرنا ہے۔
اس حوالے سے سابق وزیر مملکت ہارون اخترنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا مجھے اس کا ذاتی افسوس ہے، وزیر اعظم نے انہیں بھرپور سپورٹ دی ہے لیکن میرے خیال میں وزیر اعظم کے علاوہ وزارتوں اور پارلیمنٹ سے انہیں وہ سپورٹ نہیں مل سکی، اگر کوئی اچھا کام ہوتا تھا تو اس کا کریڈٹ لینے کے لئے بہت سارے لوگ نمودار ہوجاتے تھے اور اگر کوئی کمی نظر آتی تو وہ ایف بی آر کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کے کھاتے میں ڈال دی جاتی تھی۔
دوسری جانب پاکستان کے ادارہ شماریات (پی بی ایس) کے مطابق جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 12 سال کی بلند ترین سطح 14.6 فیصد پر آگئی جبکہ گزشتہ سال دسمبر میں یہ 12.6 فیصد تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کنزیومر پرائز انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق مہنگائی گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 1.97 فیصد بڑھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 08-2007 میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح 17 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔
ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق غذا کی قیمتوں میں اضافہ بالخصوص گندم، آٹا، دالیں، چینی، گڑ اور کھانے کے قابل تیل کی قیمتوں میں اضافہ جنوری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا سبب بنی۔
28404/
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ضروری غذائی اشیا جیسے سبزی اور پھل کی قیمتیں شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں زیادہ ہیں، دیہی علاقوں میں کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ایل پی جی سلینڈر کی قیمتوں میں بھی 2013 کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔
روپے کی قدر میں کمی اور بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ان کی مانگ میں اضافہ جولائی 2019 سے مہنگائی میں جاری اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ شہری علاقوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں میں جنوری کے مہینے میں سالانہ بنیادوں پر 19.5 فیصد جبکہ ماہانہ حساب سے 2.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ یہ دیہی علاقوں میں بالترتیب 23.8 فیصد اور 3.4 فیصد بڑھا ہے۔
اس سے صاف واضح ہے کہ دیہی علاقے، جہاں ملک کی زیادہ تر آبادی موجود ہے، میں غذائی اشیا میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں ہوا۔
شہری علاقوں میں غذائی اشیا، جن کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، مونگ کی دال 19.74 فیصد، چنے کی دال 18.2 فیصد، مرغی 17.53 فیصد، انڈے 14.28 فیصد، گندم 12.63 فیصد، بیسن 12.09 فیصد، تازہ سبزیاں 11.7 فیصد، ماش کی دال 10.29 فیصد، گڑھ 9.49 فیصد، پھلیاں 8.09 فیصد، گندم کا آٹا 7.42 فیصد، مسور کی دال 7.33 فیصد، مرچ اور مصالحے 7.15 فیصد، چنے 6.68 فیصد، چینی 5.07 فیصد، تازہ پھل 3.93 فیصد، سرسوں کا تیل 2.87 فیصد، گندم کی اشیا 2.64 فیصد، گھی 2.18 فیصد، چاول 1.2 فیصد، مچھلی 1.19 فیصد اور خشک میوہ ججات 1.09 فیصد شامل ہیں۔
دوسری جانب جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ان میں پیاز 18.37 فیصد، ٹماٹر 8.36 فیصد اور آلو 3.69 فیصد ہیں۔
دیہی علاقوں میں غذائی اشیا، جن کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، مونگ کی دال 18.7 فیصد، مرغی 17.3 2 فیصد، تازہ سبزی 15.39 فیصد، چنے کی دال 14.21 فیصد، انڈے 12.89 فیصد، گڑھ 12.84 فیصد، بیسن 9.97 فیصد، گندم 9.07 فیصد، مسور کی دال 6.77 فیصد، گھی 6.55 فیصد، پکانے کا تیل 6.48 فیصد، ماش کی دال 6.31 فیصد، گندم کا آٹا 6.16 فیصد، سرسوں کا تیل 5.13 فیصد، مرچ مصالحے 4.85 فیصد، پھلیاں 4.54 فیصد، چینی 4.36 فیصد، چنے 4.22 فیصد، خشک میوہ جات 3.54 فیصد، مکھن 2.49 فیصد، آلو 1.96 فیصد، گوشت 1.82 فیصد، چاول 1.77 فیصد، گندم کی مصنوعات 1.67 فیصد، خشک دودھ 1.4 فیصد شامل ہیں۔
پنجاب میں نئی فصل کی کاشت کے بعد غذائی اشیا کی قیمتوں میں کمی کی توقع کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ٹماٹر، پیاز، آلو اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں فروری اور مارچ میں کم ہوں گی۔