شریف خاندان اور ان کے آپسی تعلقات سے متعلق کئی خبریں زیر گردش رہیں جن میں ان کے آپسی اختلافات اور خاندان کی آپسی مبینہ چپقلشوں سے متعلق بات کی گئی لیکن شریف خاندان کے قریبی ذرائع اور ان کے ترجمان کی جانب سے ہمیشہ ہی ان خبروں کی تردید کی گئی۔
شریف خاندان کے آپسی اختلافات پر سینئیر کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے قومی اخبار روزنامہ جنگ میں شائع اپنے حالیہ کالم میں بات کی اور کہا کہ میں یہ سنتے سنتے ’’بوڑھا‘‘ ہو گیا ہوں کہ نواز شریف اور شہباز شریف ایک پیج پر نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ کہ موجودہ حکومت اور فوج ہمیشہ سے ایک پیج پر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کی بات شاید اس لئے کہی جاتی ہے کہ ماضی میں کچھ ایسی مثالیں ملتی ہیں جب حکومت اور فوج ایک پیج پر نظر نہیں آئیں مگر اب تو یہ بات نہیں کہنی چاہئے کیوں نہیں کہنی چاہئے ؟ پتہ نہیں !
عطاء الحق قاسمی کا کہنا تھا کہ باقی نواز اور شہبازمیں ’’ اختلافات‘‘ کا بار بار ذکر کرنے والے شاید شریف خاندان کی روایات سے واقف نہیں ہیں، اس خاندان میں اگر کوئی بھائی دوسرے بھائی سے چھ ماہ ہی بڑا ہو، اسے ’’بڑا‘‘ ہی سمجھا جاتا ہے اور چھوٹا بھائی اس بھائی کو وہی عزت دیتا ہے جو بڑوں کی کی جاتی ہے ۔
میں نے جدہ میں اس خاندان کی جلاوطنی کے دوران ان کے طور طریقے دیکھے تھے ۔میاں محمد شریف اور بیگم میاں شریف کھانے کے وقت کرسیوں پر بیٹھے ہوتے تھے اور باقی سارا خاندان، نواز شریف، ان کی بیگم اور بچے، شہباز شریف اور ان کی بیگم اور بچے سب نیچے زمین پر بیٹھے کھانا کھاتے تھے اور عباس شریف جو دونوں بھائیوں سے چھوٹے تھے وہ کسی خادم کی طرح اپنے والد اور والدہ کے قریب کھڑے انہیں سرو کرتے دکھائی دیتے تھے ۔
انہوں نے اپنے کالم میں کہا کہ ہاں اگر شہباز شریف کو اقتدار کا شوق ہوتا تو وہ جب چاہتے وزارت اعلیٰ سے وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر پہن سکتے تھے انہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے مختلف مواقع پر تین بار وزارت عظمیٰ کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے تینوں بار انکار کر دیا۔ ایک تو اس لئے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ یہ ’’غداری‘‘ کر ہی نہیں سکتے تھے۔