بے دخل ہونے والے متاثرین جائیں تو کہاں جائیں؟ کس سے فریاد کریں؟
شہر کراچی میں نالوں کی صفائی کا معاملہ گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے کیونکہ حکومتی ادارے شہری سیلاب کی اصل وجوہات کو چھوڑ کر نالوں کے اطراف کی کچی آبادیوں کی مسماری میں مشغول ہوگئے۔ ان کی ترجیح یہ نظر آرہی ہے کہ نالوں کی صفائی اور کچرے کے انتظام کو بہتر کرنے کی بجائے صرف نالوں کی چوڑائی کو بہتر کردیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا جبکہ شہری سیلاب کی وجہ یہ کچی آبادیاں نہیں بلکہ درجنوں دیگر عوامل بھی ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلیاں، تباہ حال نکاسی آب کا نظام اور سب سے بڑھ کے بکھری حکومت، اور کمزور ادارہ جاتی صلاحیتیں شامل ہیں -
جنوبی ایشیاء کے 3کروڑ آبادی کے شہر" کراچی" کی تقریباً 62 فیصد آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہے۔ اس میں 575 سے زائد بستیاں سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے تحت رجسٹرڈ ہیں جبکہ 800 سے زائد گوٹھ ’سندھ گوٹھ آباد اسکیم‘ کے تحت رجسٹرڈ ہیں- اسکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں جھگی جھونپڑیاں، کئی کچی آبادیاں اور گوٹھ ایسے ہیں جن کے متعلق اعداد و شمار حکومتی اداروں کے پاس بھی نہیں جسکی بڑی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی ہے۔ شہر کراچی کے مکینوں کا ایک بنیادی مسئلہ رہائش کی قلت ہے جبکہ طلب میں اضافہ واضح ہے۔ متوسط طبقہ ہو یا کم آمدنی والے طبقہ سب کو رہائش کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ حکومتی ادارے رہائش کی فراہمی میں ناکام نظر آتے ہیں۔ رہائش کے ساتھ ساتھ زمین کے استعمال سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں جو شہری حکمرانی و منصوبہ بندی کے لئے بنیادی ضرورت ہوتے ہیں۔ جس کے سبب اچھی پالیسیاں بنانا اور ان آبادیوں کی بہتری و ترقی سے متعلق کام بہت مشکل ہیں
ہم اکثر قانون اور آئین کی بات کرتے ہیں مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ پاکستان میں رہائش کی فراہمی ریاست کی زمہ داری ہے اور چونکہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے اس لئے ان کچی آبادیوں اور غیر رسمی بستیوں میں تیزی سے اضافہ نظر آتا ہے- کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں کے ساتھ جو پہلا تصور جوڑا جاتا ہے وہ یہ کہ وہ غیر قانونی ہیں اور جرائم سے جڑے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طعنوں اور بے حسی کی بجائے ،وہ اس اعتراف کے مستحق ہیں کہ انہیں بھی پاکستان کے کسی شہری کی طرح’ رہائش کا حق ‘حاصل ہے۔ جو ریاست کی زمہ داری ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 جو ” لوگوں کی معاشرتی اور معاشی بہبود کو فروغ دینے ” سے متعلق ہے اسکی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے کہ جنس ، ذات ، رنگ یا نسل سے قطع نظر ان تمام شہریوں کے لئے جو کسی عارضہ ، بیماری یا بے روزگاری کی وجہ سے مستقل طور پر یا عارضی طور پر اپنا روزگار کمانے سے قاصر ہیں ۔بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ، جیسے کھانا ، لباس، رہائش ، تعلیم اور طبی امداد ریاست کی زمہ داری ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں رہائش کی سالانہ طلب 350،000 یونٹ ہے ، جبکہ رسد محض ،150،000یونٹ کی تعمیر ہے۔ مکانات کی طلب اور رسد میں یہ تضاد اب کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں مہنگے انداز کی رہائش اور اپارٹمنٹس کی تعمیر پورے زوروشور سے جاری ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکام نے کم آمدنی والے شہریوں کے لئے سستی رہائش کی ضرورت کو مسلسل نظرانداز کیا جس نے ان طبقات کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یوں کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں کی تعمیر میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ چھت انسان کی بنیادی ضرورت ہے-اس وقت پاکستان میں تقریبا 34 ملین افراد کچی آبادیوں یا غیر رسمی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں بنیادی ضروریات و سہولیات کی کمی ہے۔
نکاسی آب کے تباہ حال نظام کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہری سیلاب کا موسمیاتی تبدیلی سے بھی گہرا تعلق ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سالوں میں مون سون کے موسم میں معمول سے زیادہ بارشوں کا خدشہ ہے جسکے سبب ہر سال کراچی میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے-2020 کی سیلابی صورتحال کے بعدیہ طے ہوا تھا کہ اگلے سال بارش کے موسم سے پہلے برساتی او رسیوریج نالوں کی صفائی کا کام مکمل کر لیا جائےگا۔مگر حکومتی اداروں نے نالوں کی صفائی کے بجائے غریبوں کے گھروں کو مسمار کر کے انہیں بے گھر کرنے اور زیادہ سے زیادہ زمین واگزار کرانے پر توجہ مرکوز کردی-
کراچی میں41 بڑےبرساتی نالے بشمول گجر نالہ،محمود آباد نالہ، اورنگی نالہ کے علاوہ دو ندیاں، لیاری ندی اور ملیر ندی ہیں جنہیں ماضی میں نالوں میں تبدیل کردیا گیا تھا اور ان تمام کی صفائی بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمہ داری ہے جبکہ ان کے علاوہ 500 سے زائد چھوٹے نالے ہیں۔ جنکی صفائی ڈی ایم سی کے ذمےہے- مگر موجودہ حالات میں شہری سیلاب کا تعلق کچی آبادیوں اور اس کے مکینوں کی بے دخلیوں سے جوڑ دیا گیا ہے جو کہ اس تمام معاملے کا حل نہیں اس کا ثبوت معروف ماہر شہری منصوبہ بندی عارف حسن صاحب کی زیر نگرانی ہونے والے محمود آباد نالے کے لیے کئے گئے تحقیقاتی سروےکی صورت میں موجود ہے جسے ٹیکنیکل ٹریننگ اینڈ ریسرچ سینٹر نے اربن ریسورس سینٹر کے تعاون سے مکمل کیا مگر افسوس کہ حکمران اپنی طاقت کے زعم میں حقائق سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور پسماندہ طبقے کے گھروں کو ملبے کے ڈھیرمیں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں-
نالوں سے کچرا نکالنے کی بجائے غریب طبقے کو بے گھر کیا جانا قابل مذمت ہے کیونکہ اصل معاملہ تو نالوں کی صفائی کا ہے جسکے بغیر شہری سیلاب کا مسئلہ حل نہیں ہو گا -حکومت کی ذمہ داری ہےکہ نالہ متاثرین کو متبادل رہائش فراہم کرے - واضح رہے کہ رواں سال جنوری کے مہینے میں محمود آباد نالے کے اطراف میں آپریشن کیا گیا تھا اور 57 گھروں کی مسماری کے نتیجے قریباً 180 خاندان یعنی 1440 لوگ بشمول خواتین، بوڑھے اور بچے بے گھر ہوئے.- جبکہ 180 دکانیں اور گھر ایسے تھے جو جزوی طور پر متاثر ہوئے اس میں اگر 120 مکانات جزوی متاثر تصور کیے جائیں تو یہ تعداد 300 خاندانوں تک جا پہنچے گی اور مجموعی متاثرین کی تعداد 3840 ہوئی اور ساتھ ساتھ 60خاندانوں کا کاروبار تباہ ہوا اور دو مہینے گزر جانے کے باوجود متاثرین کی بحالی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے مگر اس کے ساتھ ہی دومہینے گزر جانے کے باوجود محمود آباد نالے کی صفائی کا مکمل نہ ہونا بلدیاتی اداروں پر سوالیہ نشان ہے کیا پھر موسم برسات کا انتظار کیا جارہا ہے؟ جبکہ لوگوں کو بے دخل کئے جانے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا جبکہ اب تک متاثرین کو کسی طرح کی متبادل رہائش فراہم نہیں کی گئی ہے-
سوال تو یہ بھی ہے کہ صرف تین نالوں کی صفائی کیوں؟ بلدیہ عظمیٰ کراچی بقایا 38 نالوں سے متعلق کیا کر رہی ہے اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن چھوٹے 500 سے زائد نالوں کی صفائی کے بجائے خواب خرگوش کے مزے کیوں لوٹ رہی ہیں؟ کیا مقصد صرف غریبوں سے زمین چھیننا ہے؟؟؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر کراچی میں نالوں کی صفائی کا معاملہ نیا نہیں. کاغذات کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی سال میں کئی بار نالوں کی صفائی کرتا ہے. حد یہ ہے کہ گزشتہ سال این ڈی ایم اے نے بھی نالوں کی صفائی کی جس کی مد میں بڑی رقوم کی ادائیگی بھی ہوئی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات- ماضی میں وزیراعلیٰ سندھ سے لے کر پی ٹی آئی کے علی زیدی تک سب نالوں کی صفائی کے دعووں کے ساتھ سامنے آئے مگر کوئی کامیابی نہ مل سکی کیونکہ شہر کراچی میں کچرے کے انتظام کو بہتر کئے بغیر نالوں کی صفائی ممکن نہیں مگر ادارے اس بات کو سمجھنا نہیں چاہتے کیونکہ ہر سال کی آمدن کا معاملہ ہے- وفاقی و صوبائی حکومتوں کا ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری و ساری ہے ایک جانب پچاس لاکھ گھر دینے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کرنے والے سیکڑوں غریبوں اور اقلیتوں کے مکانوں کو متبادل اور منصفانہ معاوضہ دیئے بغیر مسمار کر کے انہیں بے گھر کررہے ہیں ہے اور ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کو غریب مخالف ہونے کا طعنہ بھی دے رہے ہیں ۔
یہ بات بارہا کی جا چکی ہے کہ شہر کراچی کے نالوں کی چوڑائی بحال کرنے کے لیے اگر گھروں کو مسمار کرنا اشد ضروری ہو تو پہلے متاثرین کا سروے کرایا جائے کیونکہ شہری غریب طبقے کے لیے بھی رہائش ایک بنیادی ضرورت ہے-مگر ایسا کوئی زمینی سروے نہیں کرایا گیا بلکہ نااہل اور اناڑی لوگوں کے اندازوں کو بنیاد بنا کر محمود آباد نالہ ، گجر نالہ اور پھر اورنگی نالہ کے اطراف کی کچی آبادیوں کے گھروں کو نشان زد کیا گیا اور قانونی طور پر لیز اور بغیر لیز کے مکانات میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا حتی کہ اس اناڑی ٹیم کے افراد زمینی حقائق سے بالکل بے خبر تھےاور انہوں نے اس معاملے پر بھی توجہ نہ دی کہ ماضی میں گجر نالہ کی اصل سمت کیا تھی؟ اور کس کس مقام پر نالے نے اپنی جگہ تبدیل کی اور اس سمت اور جگہ کی تبدیلی کے پیچھے کیا عوامل تھے؟ جیسا کہ ماضی میں گودھرا نیوکراچی کے قریب گجر نالے کا مقام تبدیل کیا گیا اور نالہ کئی فٹ دور کسی اور زمین میں بہنے لگا جو کہ نالے کی حدود نہ تھی اور ان اناڑی افراد کے غیر زمینی سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیہ عظمی کراچی نے نیوکراچی گودھرا میں نیو فاطمہ جناح کالونی میں مسماری کے لئے نشانات لگادیئے جو کہ کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی لیز آبادی ہے- یہ وہ آبادی ہے کہ جسے جمشید روڈ کی تعمیر کے وقت وہاں سے لوگوں کو ہٹا کر یہاں متبادل دے کر آباد کیا گیا تھا-
یہ ایک واقعہ نہیں ایسی کئی کہانیاں موجود ہیں اس وقت وہ ہی صورتحال ہے کہ جیسا ہم نے ماضی قریب میں کراچی سرکلر ریلوے کی ملحقہ آبادیوں میں دیکھا کہ ایسے آپریشن میں صرف غریبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور قانون کا راگ الاپنے والے سپریم کورٹ کے احکامات کو بھول گئے اور ڈیڑھ سال کاعرصہ گزر جانے کے باوجود ان متاثرین کی آبادکاری پر توجہ نہیں دی گئی- محمود آباد نالہ ، گجر نالہ اور پھر اورنگی نالہ، یہاں بھی یہی تاریخ دہرائی جارہی ہے اور متاثرین در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں-
کراچی بچاؤ تحریک، اربن ریسورس سینٹر،جوائنٹ ایکشن کمیٹی، کراچی اربن لیب، ٹیکنیکل ٹریننگ اینڈ ریسرچ سینٹر سے لے کر عوامی ورکرز پارٹی اور جماعت اسلامی تک اس ظلم کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند کر رہے ہیں ۔عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے لے کر احتجاج کا ہر طریقہ اختیار کیا جارہا ہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟ یوں لگتا ہے کہ شہر کراچی پر اب ان غریب مکینوں کا کوئی حق نہیں رہا جبکہ ان اداروں سے سوال کرنے والا اور پوچھنے والا کوئی نہیں جنہوں نے انہی آبادیوں سے کروڑوں روپے کمائے-
پچھلے سال بارشوں کے سبب جو شہر کراچی کا حال ہوا تھا اس کے بعد ضروری تھا کہ بارشوں کے شروع ہونے سے پہلے نالوں کی صفائی کا کام مکمل کر لیا جاتا مگر زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں اور اگست2021 تک بھی کراچی کےنالوں کی صفائی کا کام مکمل ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ حکومتی ادارے نالوں کی صفائی اور کچرے کے انتظام کی بہتری سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں-