طالبان افغانستان فتح نہ کر سکے تو مشکلات پاکستان کی بڑھیں گی

طالبان افغانستان فتح نہ کر سکے تو مشکلات پاکستان کی بڑھیں گی
افغانستان کے موجودہ حالات کی بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مڑ کر پیچھے دیکھا جائے تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ کھربوں ڈالر کے اس کاروبار (جنگ) میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے پشتونوں کو جانوروں کی منڈیوں کی طرح فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ 9/11 کے بعد ایک مکمل پلان کے تحت پشتون علاقوں میں دہشت گردی کاشت کی گئی۔ اس کے بعد بڑی کہانیاں بتائی جا سکتی ہیں۔ سوات آپریشن کے علاوہ قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کیے گئے لیکن دو بڑے آپریشن وزیرستان میں کیے گئے جو سالوں سے جاری ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس معاملے کو شطرنج سمجھ کر کھیلتی جا رہی ہے۔

آپریشن راہِ نجات اور آپریشن ضربِ عضب کے بعد لوگوں پر کیا گزری وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن ڈالروں کے اس کاروبار سے خوب مستفید ہونے کے باوجود جب لوگوں کو واپس بھیجا گیا تو ٹی ٹی پی کے وہ دہشت گرد جو فوجیوں کے سروں سے فٹبال کھیلتے رہے تھے، آرمی کے پاس سے 'سرنڈر' کے نام پر برآمد ہوئے۔ لوگ حیران و پریشاں ماحول کو دیکھتے رہے لیکن اس پر صبر نہ کی گئی اور آہستہ آہستہ دہشت گردوں کو مختلف علاقوں میں آباد کرنا شروع کر دیا گیا۔ آپریشن راہ نجات قریباً دس سال سے جاری ہے لیکن ایسے پاکٹس بدستور موجود ہیں کہ جہاں ڈالروں کے کھیل کو دوام ملتا رہے۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے بڑے ڈھول پیٹے گئے لیکن واپسی کے چند ماہ بعد ٹارگٹ کلنگ شروع کی گئی اور ایک اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان میں اب تک چار سو کے قریب لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جا چکا ہے جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ آپریشن کرنے والوں کے تعاون کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔

اس وقت وزیرستان میں دو طرح کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ ایک طرف قومیتوں کے درمیان تنازعات کے وقت اقوام کو بڑا اسلحہ ساتھ رکھنے کی غیر اعلانیہ اجازت موجود ہے اور کئی جگہوں پر تو لوگ یہ شکایت بھی کر رہے ہیں کہ مبینہ طور پر ان اقوام کو اسلحہ بھی بیچا جاتا ہے اور یہ وہی اسلحہ ہوتا ہے جو آپریشنز کے دوران مختلف اقوام سے لیا گیا تھا۔ دوسری طرف ایسے علاقے ہیں جہاں قومی معاملات نہیں ہیں۔ ان کے پاس ایک پستول بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ کئی واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں کہ لوگوں کو گھروں سے نکال کر بچوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ آپریشنوں سے پہلے کم از کم لوگوں کے پاس اتنا اسلحہ ہوا کرتا تھا کہ گھروں سے اس طرح باہر نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ اس سارے کھیل کو مقامی لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص سکیورٹی اداروں پر اعتبار نہیں کرتا۔ اس کے نتائج انتہائی خطرناک نکلیں گے۔ لیکن یہاں ہر کوئی سوداگر ہے، ہر کوئی منافع کی دوڑ میں لگا ہوا ہے تاکہ کل کلاں آسٹریلیا میں جزیرے خریدے جا سکیں۔ اس وقت طالبان کو وزیرستان سمیت مضافاتی علاقوں میں مکمل سرپرستی کے ساتھ آباد کیا جا چکا ہے اور مزید مظبوط بنانے کی کوشش جاری ہے۔

اب آتے ہیں موجودہ افغانستان اور خطے کے حالات کی طرف۔ ایک طرف پاکستانی عوام کو باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عالمی منظرنامہ تبدیل ہونے کی وجہ سے بعض قوتیں ہماری مخالف ہوتی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب چائنا کو بھی یہی آسرا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کا بڑا ثبوت پارلیمان کا وہ سیشن ہے جس میں یہاں تک کہا گیا کہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش ایک ہی سکے کے کئی رخ ہیں اور اس پر بڑا شور بھی مچایا گیا اور مبصرین اس کو ملک کے لئے ایک خطرناک صورتحال قرار دے رہے ہیں لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جو کہا گیا وہ سب اس کھیل کا حصہ تھا جو ابھی مزید ہمیں مزید سخت دن دکھائے گا۔ میں چند مثالیں دینا چاہتا ہوں کیونکہ یہ سب چیزیں پارلیمنٹ کے اسی سیشن کے بعد ہوئیں۔

پہلی مثال: پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موجود مخصوص طبقہ ایک اشارے کا منتظر ہوتا ہے اور اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ واقعی ایسا سمجھتی کہ یہ سب دراصل ایک ہی سوچ کی حامل تنظیمیں ہیں تو اب تک طالبان کے خلاف ایک بہت بڑی مہم شروع ہو چکی ہوتی لیکن اسی سیشن کے بعد پاکستانی میڈیا نے انتہائی منظم طریقے سے افغان طالبان کے حق میں بولنا شروع کر دیا۔ اور سوشل میڈیا کے وہ مخصوص طبقات تو اس قدر جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ جیسے ازبکستان تک طالبان کے قبضے میں آ چکا ہو۔ پارلیمنٹ کے اسی سیشن کے بعد وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بڑی تیزی کے ساتھ ٹی ٹی پی کو آباد کیا گیا اور جو لوگ پہلے سے موجود تھے، جو چھپ کر سرگرمیاں کیا کرتے تھے، وہ بھی منظر عام پر آ گئے ہیں۔

دوسری مثال: پارلیمان کے اسی سیشن کے بعد شمالی علاقاجات کے انتہائی پرامن علاقوں میں دہشت گردوں نے کھلی کچہری کا انعقاد کیا اور کچھ دن بعد چینی انجینئرز کی گاڑی پر دھماکہ کیا گیا جس کے بعد چین کا انتہائی سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور سی پیک کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کو بھی ملتوی کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہوں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چین کی طرف سے اجلاس کے التوا پر پریشان ہے وغیرہ، لیکن میرا خیال بالکل الگ ہے کیونکہ سی پیک عمران خان کے ٹرمپ دور میں دورہ امریکہ کے بعد تقریباً بند ہو گیا تھا یا اگر مکمل بند نہیں تھا تو کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ حال ہی میں خود عمران خان نے کہا کہ اب ہم سی پیک پر تیزی کے ساتھ کام شروع کریں گے اور مبصرین خان صاحب کے اس بیان کو امریکی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ جیسے وہ امریکیوں کو سمجھا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آپشنز موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب بھی کئی چیزوں کے حوالے سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے کہ ہم۔ عاصم باجوہ صاحب کو سی پیک میں اتنا بڑا عہدہ دینے سے ہی سی پیک کے حوالے سے پاکستانی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہی یہ تھی کہ چین کے ساتھ کوئی ایسی ڈیڈلاک ہو جس کے بعد امریکہ کے ساتھ جانے کے لئے عوام کو اچھا جواز فراہم کیا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابھی ابتدا ہے۔ ابھی مزید ایسے واقعات ہوں گے جو چین پاکستان تعلقات میں مذید سرد مہری کا باعث بنیں گے۔ لہٰذا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم چائینیز بلاک میں جا رہے ہیں، وہ واقعات کو ضرور ذہن میں رکھتے جائیں۔

اب آتے ہیں افغانستان کی طرف کہ یہاں کیا کرنے کی کوشش ہوگی؟ میری نظر امریکہ کے اس طرح اچانک نکل جانے کے بعد اب برطانیہ کی طرف سے اس اعلان پر ہے کہ ہم افغان طالبان کے ساتھ کام کریں گے اور پھر ان دونوں ممالک کی میڈیا کے ذریعے افغان طالبان کی اس قدر سپورٹ سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اصل چیز چین کے لئے بڑی رکاوٹ کھڑی کرنا ہے اور یہاں وہ مقام ہوگا جہاں سے پاکستان کی مشکلات ناقابلِ برداشت حد تک بڑھیں گی۔

اس وقت بظاہر یہی لگتا ہے کہ پاکستان نے چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ افغان طالبان بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ہمیں آسانیاں دیں گے اور چین کا سب سے بڑا ٹارگٹ افغانستان میں موجود کھربوں ڈالر کی معدنیات ہوں گی لیکن داسو ڈیم کے انجینئرز پر ہونے والے حملے کے بعد چین کے ردعمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چینی چیزوں کو کتنی باریکی سے دیکھ رہے ہیں اور ہم پر آسانی کے ساتھ اعتبار نہیں کرنے والے۔

اگر چینی بھی امریکیوں کی طرح جارحانہ انداز اختیار کرتے ہیں تو پھر اندازہ لگائیں کہ ہم سینڈوچ نہیں بن رہے؟ اسی طرح ہم نے غلط اندازہ لگایا تھا کہ طالبان عید تک کابل میں ہوں گے لیکن افغان فورسز کی سخت مزاحمت نے ہمیں فرسٹریشن کا شکار بنا دیا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہمارے وزرا سے لے کر کابل میں موجود سفیر تک ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ دنیا جہاں کی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ افغان فورسز کی مزاحمت جس قدر بڑھتی جائے گی ہمارے منصوبے خراب ہوتے جائیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی مشکلات بڑھیں گی۔ چیزیں سامنے آتی رہیں گی اور ہم مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ اور بس یہی کہیں گے کہ ہم نے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دی ہے۔

احتشام افغان ایک سیاسی کارکن ہیں اور پشتون تحفظ تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔