صحافت پاکستان میں طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے

صحافت پاکستان میں طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے
ملک میں بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ہر طبقے کے افراد کا مختلف رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ مہنگائی اور ٹیکس کی بھرمار سے تنگ ہیں تو کچھ تنخواہوں میں اضافے کی خبر پر چین کا سانس لے رہے ہیں۔ یوں تو مملکت خداداد میں یہ وطیرہ کوئی نیا نہیں ہے کہ حکومت تنخواہوں میں اضافہ ہر بجٹ میں کرتی ہے مگر عملی جامہ پہنانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ہر بجٹ میں دیہاڑی دار مزدور سے لے کر پرائیوٹ ملازمین تک سب کی تنخواہوں میں اضافے کی باز گشت تو ملتی ہے مگر در حقیقت بعدازاں کہیں عدالتی سٹے اور کہیں بے روزگاری کا ڈر پرانی تنخواہوں پر ہی کام کرنے پر مجبور رکھتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت سڑک پر کھڑا مزدور ہو یا مل فیکٹری کا مالک، ہر شخص حالات سے تنگ ہے۔ مگر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ہر طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتا ہے اور ان کی آواز بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ طبقہ صحافیوں کا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ صحافی خود بھی روز بروز ایسے ہی مسائل سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا ہاؤسز کے اندر موجود اور میڈیا مالکان کی اپنے ملازمین سے جو سیاست جاری ہے وہ اتنی وسیع سطح پر ہے کہ ہم صحافی بعض اوقات پارلیمان کی سیاست کو بھول کر اپنے ساتھ ہونے والی سیاست پر عش عش کر اٹھتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں میڈیا مالکان بھی صحافیوں کے ساتھ سیاست کر رہے ہیں۔ یوں تو ہر بجٹ پر اعلان کر دیا جاتا ہے کہ تمام میڈیا ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے مگر حقیقت میں صرف ان میڈیا ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے جو لوگ گذشتہ کئی سالوں سے میڈیا ہاؤسز کا حصہ ہیں اور جب ان کو مستقل ملازم رکھا جاتا تھا۔ اب تمام بڑے میڈیا ہاؤسز نے بھی یہ کام شروع کر دیا ہے کہ کسی بھی ملازم کو مستقل نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کو دو یا تین سال کے کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت تمام میڈیا ہاؤسز میں 50 فیصد سے زیادہ تعداد ان ملازمین کی ہے جو مستقل نہیں ہیں بلکہ کنٹریکٹ پر ہیں۔ انہیں آؤٹ سورس بھی کہا جاتا ہے۔

ایک تو ان کی تنخواہیں ویسے ہی مستقل ملازمین کی نسبت کم رکھی جاتی ہیں، دوسرا ان کو کسی بھی سہولت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ مثال کے طور پر ان کو میڈیکل کی سہولت نہیں دی جاتی۔ جب بھی میڈیا ہاؤسز تنخواہیں بڑھانے کا تذکرہ کرتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں تو ان میں کنٹریکٹ ملازمین کو شامل نہیں کیا جاتا۔ مستقل ملازمین کی تنخواہوں میں سے ٹیکس کی کٹوتی جہاں نا ہونے کے برابر ہے وہیں کنٹریکٹ ملازمین کی ایک لاکھ تنخواہ پر 10 ہزار روپے ٹیکس کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین کا کنٹریکٹ چاہے دو یا تین سال کا ہو ان کے چار صفحات کے کنٹریکٹ پر کہیں نہ کہیں ایسی شق بھی رکھ دی جاتی ہے کہ اس دوران بھی ان کو ایک دن کے نوٹس پر فارغ کر سکتے ہیں۔

حال ہی میں اطلاع ملی کہ پاکستان کے ٹاپ کے چار پانچ بڑے میڈیا ہاؤسز نے اب مستقل ملازمین کو ملازمت پر رکھنا ہی بند کر دیا ہے۔ صرف کنٹریکٹ پر صحافیوں کو رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مہنگائی اور بیماری سمیت ملکی حالات کا اثر کیا کنٹریکٹ ملازمین پر نہیں ہوتا؟ کیا ان کے ہاں بیوی بچے یا فیملی موجود نہیں؟ میڈیا مالکان کی صحافیوں کے ساتھ اس سیاست کا ذمہ دار کون ہے؟

جب ان حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں اب صحافت بھی ملکی سیاست کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک صحافت کمرشلائزڈ ضرور ہوئی تھی مگر کہیں نہ کہیں صحافتی اقدار کی پاسداری ہوتی نظر آتی تھی۔ مگر پھر یوں ہوا کہ پہلے تو پارلیمان میں بیٹھے لوگوں نے میڈیا پر اس قدر پابندیاں لگائیں اور میڈیا ہاؤسز کا استحصال شروع کیا کہ کئی پرانے صحافتی ادارے بند ہو گئے اور ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوئے۔ حال ہی میں ایکسپریس اخبار نے اپنے سنڈے میگزین کو بند کیا اور دیگر کئی اخبارات نے اپنے صفحات کی تعداد میں کمی کی، وہیں حکومتی اشتہارات نہ ملنے کی صورت میں گذشتہ حکومت میں ہزاروں صحافیوں کی کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں روک لی گئیں۔ بالآخر جب کوئی ادارہ بالکل بند ہونے کی پوزیشن میں پہنچتا تو کوئی نہ کوئی سیاسی رہنما اس کو خرید لیتا جس سے وہ اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی ایجنڈا ملک بھر میں باآسانی پہنچا سکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت کوئی میڈیا ہاؤس ایسا نہیں جس کا مالک پس پردہ کوئی نہ کوئی کاروبار نہ کر رہا ہو یا کوئی تعلیمی ادارہ نہ چلا رہا ہو۔ بہت سے سیاسی رہنما کئی میڈیا ہاؤسز کے سلیپنگ پارٹنرز کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ زیادہ تر میڈیا مالکان کا تعلق ہاؤسنگ سوسائٹیز سے ہے اور میڈیا ہاؤس ان کو ٹھیک ٹھاک سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ جب بھی کوئی میڈیا مالک کرپشن، دو نمبری یا کسی بھی غیر قانونی اقدام کی پاداش میں گرفتار ہوتا ہے تو اس سے تعلق رکھنے والا میڈیا ہاؤس اس کی گرفتاری کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتا ہے۔

صحافت، جس ادارے کو پاکستان کا پانچواں ستون کہا جاتا تھا اب یہ ستون پچھلے چار ستونوں میں یوں پھنس چکا ہے کہ اپنی اصل شناخت گنوا بیٹھا ہے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@