تنقید کرنے والے صحافی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نشانے پر رہتے ہیں

وائس آف امریکہ سے منسلک صحافی ضیاء الرحمن کے مطابق 2014 میں اسلام آباد دھرنے کے دوران سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا بلکہ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی۔ جبکہ چند سال قبل ایک مذہبی جماعت کے کارکنان نے بھی ایسا ہی کیا۔ انہیں متعدد مرتبہ ہراساں کیا گیا جس سے انہیں شدید ذہنی کوفت اٹھانا پڑی۔

تنقید کرنے والے صحافی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نشانے پر رہتے ہیں

آزادی صحافت کی راہ میں جہاں حکومتیں اور حکومتی ادارے رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، وہیں ملک کی بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی مناسب کوریج نہ ملنے پر یا پھر ان کی جماعت اور بیانیے کے خلاف خبریں نشر کرنے پر میڈیا ہاؤسز کے کارکنوں کو ہراساں کرتے اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں میڈیا کے متعلق اس شدت پسندی کو گذشتہ چند برسوں میں زیادہ فروغ ملا ہے۔

میڈیا ورکرز پر تشدد اور انہیں ہراساں کرنے کے واقعات

ضیاء الرحمن 'وائس آف امریکہ' کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ کئی مقامی ٹی وی چینلز کے ساتھ بھی بطور رپورٹر کام کرتے رہے ہیں۔ ضیاء الرحمن نے بتایا کہ ان کے ساتھ متعدد بار ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کوریج کے دوران انہیں ہراساں کیا گیا بلکہ بعض موقعوں پر تو انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ضیاء الرحمن کے مطابق 2014 میں اسلام آباد دھرنے کے دوران سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا بلکہ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی تھی۔ جبکہ چند سال قبل ایک مذہبی جماعت کے کارکنان نے بھی ایسا ہی کیا۔ انہیں متعدد مرتبہ ہراساں کیا گیا جس سے انہیں شدید ذہنی کوفت اٹھانا پڑی۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے اپنے ادارے کو آگاہ کیا جبکہ ان کے ادارے کی طرف سے پولیس کو بھی شکایت کی گئی لیکن مذہبی دباؤ کی وجہ سے پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اس کے علاوہ حالیہ مہینوں میں مینار پاکستان، مال روڈ اور کینال روڈ پر ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کی طرف سے انہیں ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے جب ان واقعات بارے اپنے ادارے کو آگاہ کیا توانہیں ہدایت کی گئی کہ وہ خود کو محفوظ رکھیں اور ایسے معاملات سے دور رہیں جو ان کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

'وائس آف امریکہ' کے لئے ہی کام کرنے والی خاتون صحافی سدرہ ڈار بتاتی ہیں کہ 2014 میں جب عمران خان جلسے سے خطاب کے لئے کراچی آئے تو ان دنوں وہ جیو نیوز کے ساتھ کام کر رہی تھیں جبکہ جیو کے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے۔ جلسے کے اختتام پر پی ٹی آئی کے کارکنان نے ان کی (جیو) گاڑی کو گھیر لیا، وہ اور کیمرہ مین گاڑی کی چھت پر تھے۔ پی ٹی آئی کارکنان نے گالیاں دیں اورگاڑی پر پتھراؤ کیا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا جو شاید انہیں کبھی نہیں بھولے گا۔ سدرہ ڈار نے بتایا کہ پھر اظہرعباس سمیت چند دیگر سینیئر صحافی آ گئے اور انہوں نے پی ٹی آئی کارکنان کو سمجھایا جس کے بعد وہ لوگ منتشر ہوئے تھے۔

جیو نیوز کی خاتون رپورٹر دعا مرزا نے بتایا کہ دو سال قبل نیو ایئر کی تقریبات کی ریکارڈنگ کے دوران ایک مذہبی جماعت کے کارکنان نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں ہراساں کیا تھا۔ وہ شکایت لے کرپولیس کے پاس گئیں تو ایک سینیئر پولیس افسر نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایف آئی آر درج نہ کروائیں کیونکہ وہ کیس کی پیروی نہیں کر سکیں گی۔ ان کے مطابق ہمارا سسٹم اتنا مضبوط نہیں کہ ہر فرد کو سکیورٹی فراہم کر سکے۔ وہ لوگ آپ کو مزید ہراساں کریں گے۔ تاہم اس کے باوجود اگر آپ ایف آئی آر درج کروانا چاہیں تو ہو جائے گی۔ تاہم پولیس افسر کے مشورے اور حالات کو مدنظررکھتے ہوئے انہوں نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی تھی۔

میڈیا مالکان اور نیوز روم کی پالیسیوں کا خمیازہ کارکنان کو بھگتنا پڑتا ہے

فیلڈ میں کام کرنے والے رپورٹرز اور کیمرا مینوں کو بعض اوقات اپنے ادارے اور نیوز روم کی پالیسیوں کی وجہ سے بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاہور میں ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ صحافی اور سینیئر رپورٹر طالب فریدی نے بتایا کہ 2021 میں جب تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی طرف سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا گیا اور دھرنے دیے جا رہے تھے اس وقت لاہور میں ٹی پی ایل کے کارکنان کی طرف سے ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور انہیں کوریج سے روکا گیا تھا۔

ایک اور سینیئر رپورٹر ثاقب سلیم بٹ نے بھی یہی بتایا کہ ٹی ایل پی کے احتجاج اور دھرنوں کے دوران کارکنان کی طرف سے ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔ ٹی ایل پی کے کارکنان کو یہ شکایت تھی کہ ان کے ادارے سمیت دیگر چینلز ان کا احتجاج اور دھرنا دکھانے کے بجائے یہ دکھاتے ہیں کہ احتجاج کی وجہ سے لوگوں کو کس قدر مسائل پیش آ رہے ہیں اور ٹریفک بند ہے۔ تحریک لبیک کے کارکنان کے مطابق میڈیا احتجاج اوردھرنے کا نیگیٹو پہلو دکھاتا ہے۔

گذشتہ 18 سال سے میں خود مذہبی جماعتوں کی بیٹ کرتا رہا ہوں۔ مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتوں کی نسبت میڈیا ورکرز کو زیادہ عزت اور احترام دیتی ہیں۔ ان کے جلسے، جلوسوں اور پریس کانفرنسز کی کوریج کے لیے جائیں تو چائے، پانی اور بعض اوقات کھانا بھی پیش کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس صحافی حضرات سیاسی جماعتوں کے دفاتر اور سیاسی لیڈران کے گھروں کے باہر گھنٹوں بھی کھڑے رہیں تو کوئی انہیں پانی تک نہیں پوچھتا۔

میری رائے میں مذہبی جماعتوں کا یہ گلہ کسی قدر بجا ہے کہ میڈیا ان کے پرامن احتجاج، دھرنوں اور پروگراموں کی کوریج نہیں کرتا لیکن اگر انتطامیہ کے ساتھ کوئی تلخ کلامی اور ٹکراؤ ہو جائے تو پھر بڑھا چڑھا کرنشر کیا جاتا ہے جس سے مذہبی جماعتوں کی بدنامی ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کی طرف سے میڈیا کارکنان کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ بھی میڈیا ہاؤسز مالکان اور نیوز روم کی پالیسیاں بنتی ہیں۔ ماضی میں پی ٹی آئی والے جیو نیوز سمیت اپنے مخالف ٹی وی چینلز کو اپنے پروگراموں میں مدعو نہیں کرتے تھے اور انہیں کوریج کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ جبکہ مریم نواز شریف نے بھی ایک پریس کانفرنس میں آے آر وائے نیوز کا مائیک ہٹا دیا تھا اور انہیں مسلم لیگ ن کے پروگراموں کی کوریج کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کے اس عمل کو نچلی سطح پر ان کے کارکن بھی فالو کرتے ہیں اور پھر میڈیا ہاؤسز کے ورکروں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔

میڈیا کارکنان پر تشدد اور کوریج سے روکنے پر صحافتی تنظیموں کا ردعمل

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری رانا عظیم کا کہنا ہے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور ان کے کارکنان کی طرف سے میڈیا ورکرز کو ہراساں کیا جانا، ان پر تشدد کرنا اور انہیں کوریج سے روکنا غیر جمہوری اور غیر قانونی عمل ہے۔ پی ایف یو جے نے ہمیشہ ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو خود کو جمہوریت اور مذہب کی چیمپئن سمجھتی ہیں ان کا رویہ ان کے بیانیے اور سوچ سے اختلاف رکھنے والے چینلز اور اخبارات کے کارکنوں کے ساتھ افسوس ناک ہوتا ہے۔ وہ اختلاف رائے برداشت ہی نہیں کرتیں اور تشدد، دھونس اور دھمکیوں کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔

رانا محمد عظیم کہتے ہیں کہ سب سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایسی نہیں ہیں، آج بھی اکثریت ایسی جماعتوں کی ہے جن کے کارکن میڈیا اور ان کے ورکرز کا احترام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں میڈیا ورکرز کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات سامنے آئے، وہاں زیادہ تر واقعات میں ان میڈیا ورکرز کے اداروں کی پالیسی یا پھر ان میڈیا ورکرز کا ذاتی رویہ بھی اہم وجہ بنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے بعض میڈیا ورکرز بھی اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ وہ ذرا سی بات برداشت نہیں کرتے۔

پنجاب میں گذشتہ 5 سالوں میں کتنے صحافیوں کو ہراساں کیا گیا؟

پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت پنجاب پولیس سے یہ معلومات لینے کی کوشش کی گئی کہ 2018 سے جون 2023 تک پنجاب میں کتنے صحافیوں پر مذہبی یا سیاسی جماعتوں کی طرف سے تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس آر ٹی اے کا ابھی تک کوئی آفیشل جواب تو موصول نہیں ہوا تاہم پنجاب پولیس کے حکام نے بتایا کہ کیٹگریز وائز ایسا کوئی ڈیٹا مرتب نہیں کیا جاتا، اس لئے یہ بتانا مشکل ہے کہ کتنے صحافیوں نے ایسی کوئی شکایات درج کروائی ہیں۔ اسی طرح پنجاب یونین آف جرنلسٹس، لاہور پریس کلب اور الیکٹرانک میڈیا رپورٹرز ایسوسی ایشن کے پاس بھی ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے، ماسوائے چند اہم واقعات کے جو اخبارات میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

تاہم میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کی طرف سے رواں سال مئی میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف کارروائیوں، حملوں اور دھمکیوں میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2022 سے مارچ 2023 کے دوران صحافیوں کے خلاف دھمکیوں اور حملوں کے 140 واقعات رپورٹ ہوئے۔ صحافیوں پر تشدد کے 56 واقعات کے ساتھ اسلام آباد پہلے نمبر پر ہے۔ پنجاب میں صحافیوں پر تشدد کے 35 اور سندھ میں 23 کیسز سامنے آئے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں 2021-22 میں 86 سے بڑھ کر 2022-23 میں 140 ہو گئیں، جو تقریباً 63 فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں میں ہر سال مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

میڈیا کارکنان پر تشدد کی روک تھام کے لیے حکومت کا اقدام

دوسری جانب پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے صحافی برادری کے تحفظ کیلئے پنجاب جرنلسٹس پروٹیکشن کوآرڈی نیشن کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات اور ان کا ازالہ کرے گی۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے کمیٹی کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری ہو چکا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل لیگل پنجاب کو کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا ہے اور کمیٹی میں صدر پی ایف یو جے، صدر پی یو جے، صدر لاہور پریس کلب، پی جے ایس سی پنجاب چیپٹر اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فریڈم نیٹ ورک بطور ممبر شامل ہیں۔ صوبائی وزیر عامر میر کے مطابق کمیٹی صوبے میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور ضلعی پولیس افسران اور صحافیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر کام کرے گی۔

نگران صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر کے مطابق کمیٹی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی اور تشدد کا نوٹس لے گی اور واقعات کا جائزہ لے کر مناسب اقدامات تجویز کرے گی۔ عامر میر نے کہا کہ نگران حکومت میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور اس کمیٹی کا مقصد جرنلسٹ کمیونٹی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

آصف محمود براڈکاسٹ جرنلسٹ اور فری لانسر ہیں۔ وہ ایکسپریس نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔