8 فروری یوم حساب، عوام ووٹ کے ذریعے اپنا غصہ نکالیں گے

انقلاب بلٹ سے نہیں، بیلٹ پیپر سے آ سکتا ہے۔ ہئیت مقتدرہ کو دھاندلی کے گر آتے ہیں۔ اس کے سامنے بند صرف عوام ہی باندھ سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ بہت بڑی تعداد میں عوام نکل آئے اور ووٹ ڈالنے کی اوسط 70 فیصد تک پہنچ جائے۔ پھر دھاندلی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

8 فروری یوم حساب، عوام ووٹ کے ذریعے اپنا غصہ نکالیں گے

8 فروری یوم حساب ہے۔ اس دن وطن عزیز میں عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام ووٹ کی طاقت سے اپنے من پسند سیاست دانوں کو منتخب کر سکتے ہیں۔ گو کہ شفاف انتخابات کے حوالے سے وطن عزیز کا ریکارڈ کوئی متاثر کن نہیں ہے۔ کبھی بھی ہماری ہئیت مقتدرہ نے اقتدار عوام کے اصل نمائندوں کو منتقل نہیں ہونے دیا۔ اگر انتہائی مجبوری کے عالم میں ایسا کرنا بھی پڑا تو اقتدار دے دیا مگر اختیار نہیں دیا۔ طاقت کے اصل مراکز نے ہمیشہ اختیارات کو اپنے قبضے میں رکھا ہے۔ چاہے پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ نواز ہو یا تحریک انصاف؛ سیاست دانوں کو ہمیشہ بے اختیار ہی رکھا گیا ہے۔

8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات اپنی طرز کے واحد انتخابات ہیں جو منعقد ہونے سے پہلے ہی اپنی ساکھ خراب کر چکے ہیں۔ عام طور پر الیکشن کے عمل کے بعد اس کی ساکھ خراب ہوتی ہے مگر ان انتخابات کی ساکھ پہلے ہی خراب ہو چکی ہے۔ جس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا گیا، ملک کے سب سے مقبول ترین سیاست دان عمران خان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، جس الیکشن سے چند دن پہلے ان کو تین مقدمات میں سزا سنائی گئی اور ان عدالتی فیصلوں میں قانونی ماہرین نے جس طرح کے سقم نکالے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

عدت کیس پاکستانی سیاسی تاریخ کا بدترین کیس ہے۔ جس طرح اس نظام نے اپنے آپ کو برہنہ کیا ہے اور مسلم لیگ نواز کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے اس کے بعد اس نظام کے چہرے کی کالک سیاہ ترین ہو چکی ہے۔ بد ترین فسطائیت کی مثال دینا مشکل ہے۔ جس طرح تحریک انصاف کے امیدواروں کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا، وہ بھی نوشتہ دیوار ہے۔ ابھی ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی خواتین اور مرد رہنما جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔  پہلے بھی ہئیت مقتدرہ اپنی من پسند سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرتی رہی ہے مگر کسی سیاسی جماعت کا نشان چھین لینا، بطور سیاسی جماعت اس کو عام انتخابات سے باہر کر دینا، اس کے امیدواروں کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینا پڑ رہا ہے، یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس ظلم کا جواب ووٹ کی طاقت سے دیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی قوم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ کوئی مزاحمت کرنے والی قوم نہیں ہے۔ یہاں آج تک بڑی عوامی مزاحمت سے انقلاب برپا نہیں ہوا۔ فوجی حکمرانوں کے دور میں عوام کی مزاحمت بہت کم تھی۔ جس قدر تھی وہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر تھی۔ لہٰذا یہی امید کی جا رہی ہے کہ انقلاب بلٹ سے نہیں، بیلٹ پیپر سے آ سکتا ہے۔ دھاندلی کی ہماری تاریخ شاندار ہے۔ ہئیت مقتدرہ کو دھاندلی کے گر آتے ہیں۔ اس کے سامنے بند صرف عوام ہی باندھ سکتے ہیں۔ وہ اس صورت میں کہ بہت بڑی تعداد میں عوام نکل آئے اور ووٹ ڈالنے کی اوسط 70 فیصد تک ہو جائے۔ پھر دھاندلی کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اب یہ پاکستانی عوام پر منحصر ہے کہ وہ انقلاب بذریعہ ووٹ لانا چاہتے ہیں کہ نہیں کیونکہ ہماری ہئیت مقتدرہ سے تو کسی نیکی اور خیر کی امید نہیں ہے۔

عمران خان کے خلاف ایک ہفتے میں 3 عدالتی فیصلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ نظام کس حد تک گر چکا ہے۔ یہ اس راجہ کی مانند ہے جو اپنے غرور و تکبر میں سینہ پھلائے چلا جا رہا تھا، زور زور سے بول رہا تھا، میں راجہ ہوں، تم سب میری پرجا ہو، رعایا ہو، غلام ہو۔ گھمنڈ اس کے چہرے پر تھا۔ عوام کو نفرت و حقارت سے دیکھ رہا تھا۔ اچانک ہجوم میں سے ایک بچہ چلایا؛ ارے راجہ تو ننگا ہے۔ تب راجہ کو احساس ہوا کہ وہ اپنے غرور اور تکبر کے نشے میں لباس زیب تن کیے بغیر ہی بازار میں آ گیا ہے۔ یہی ہمارا نظام ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔