Get Alerts

کیا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اسلامی ریاست کے اصولوں کے خلاف ہے؟

کیا اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اسلامی ریاست کے اصولوں کے خلاف ہے؟
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا اعلان ہوتے ہی پاکستان کے مذہبی طبقے اور کچھ دین کا صحیح علم نہ رکھنے والے مسلمانوں نے اس مندر کی تعمیر کے خلاف ایک مہم شروع کر دی ہے اور اسے اسلام کیلئے خطرہ قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں بطور انسان غیر مسلموں کے بھی وہی حقوق ہوتے ہیں جو کہ ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اور یہ اسلام کا دیگر ادیان کی نسبت ایک امتیازی اور اعلیٰ ترین وصف ہے۔

ایک اسلامی ریاست کسی غیر مسلم کی جان، مال اور عزت کے تحفظ کی اسی طرح ذمہ دار ہوتی ہے جس طرح ایک مسلمان کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنے مذہب اور عقائد کے مطابق عبادات کی بھی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت بیت المال سے کی جا سکتی ہے۔

حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو حالت جنگ میں بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم صادر فرمایا تھا لیکن بد قسمتی سے آج کچھ کم علم مسلمان اسلام کی اس امتیازی اور شاندار روایت کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اس سے منحرف نظر آتے ہیں۔ نہ صرف رسول اکرم ﷺ خاتم النبین بلکہ خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی ریاست مدینہ میں غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی اور ان کی عبادت گاہوں پر کسی بھی قسم کی قدغن نہ تھی۔ تاہم انھیں ایک اسلامی ریاست میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل نہیں ہے۔

ایک دفعہ رسول اکرم ﷺ خاتم النبین کے دور میں ایک غیر مسلم کا قتل ہو گیا تو کچھ اصحاب رسول نے خیال کیا کہ غیر مسلم ہونے کی بنا پر شاید قصاص نہ لیا جائے لیکن جب رسول اللہ ﷺ تک معاملہ پہنچا تو آپ ﷺ نے قصاص یعنی قاتل کو قتل کا حکم صادر فرمایا۔

ایک دفعہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہ کے دور میں ایک غیر مسلم کا قتل ہوا اور اس کے ورثا نے صلح ہونے کی بنا پر مسلمان قاتل کو معاف کر دیا۔ جب یہ بات مولا علی کے علم میں آئی تو آپ نے باقاعدہ مقتول کے ورثا سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ کہیں تم نے مسلمانوں کی اکثریت سے خوفزدہ ہو کر تو صلح نہیں کی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بتاؤ میں خود اس کا قصاص لوں گا لیکن مقتول کے ورثا نے کہا نہیں ہم نے اپنی رضا سے معاف کیا ہے۔

ایک دفعہ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کچھ غیر مسلموں نے شکایت کی کہ ان کی زمین پر مسلمانوں نے مسجد تعمیر کردی ہے تو خلیفہ نے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا اور بیت المال کے پیسے سے ان کی عبادت گاہ تعمیر کروائی۔

افسوس کی بات ہے آج کے مسلمان اسلام کی ان خوبصورت اور شاندار روایات سے کوسوں دور جا چکے ہیں اور اب دوسروں کے مذہب و مسلک پر تنقید و تنقص کو ہی اصل اسلام سمجھا جا رہا ہے اور اسے ایسے ہی پیش کیا جارہا ہے۔ جب ہم یورپ اور امریکہ جاتے ہیں تو وہاں ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ وہاں ہمیں ایک سے ایک عالیشان مسجد ملتی ہے، بڑی بڑی مسلم تنظیمیں مسلمانوں کی بہتری کیلئے چندے کی بڑی بڑی رقوم جمع کرتی نظر آتی ہیں، حتیٰ کہ مسلم کمیونٹی کے اپنے الگ سکول، مدرسے اور تعلیمی ادارے بھی بڑی سرگرمی سے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جب نیوزی لینڈ میں ایک سفاک دہشت گرد نے مسلمانوں کی ایک مسجد پر حملہ کرکے کچھ بے گناہ مسلمانوں کو قتل کردیا تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح وہاں کے عوام نے اور حکومت نے اس کی نہ صرف مذمت کی بلکہ مجرم کو سزا بھی دی۔ نیوزی لینڈ کے غیر مسلم عوام مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کی خاطر مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے آئے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمان نیوزی لینڈ میں نماز ادا کر رہے ہیں اور وہاں کے عوام جن میں مرد و خواتین شامل ہیں ان کے گرد ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے حفاظتی حصار قائم کیے کھڑے ہیں۔ ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا خود سر پہ دوپٹہ اوڑھ کر مساجد میں جاتی ہے اور مسلمانوں سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافی مانگتی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیوزی لینڈ کے عوام کے مسجد جانے سے یا وہاں کی وزیراعظم کے سر پہ دوپٹہ اوڑھنے سے وہ مسلمان ہو گئی یا ان کا دین خطرے میں پڑ گیا؟ اگر نہیں تو مسلمان ایک مندر کی تعمیر کو 'اسلام کیلئے خطرہ' کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ جس دین کے پاس قرآن جیسی کتاب موجود ہو جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لی ہے، جس دین کے پاس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم النبین جیسی عظیم ترین ہستی کی بہترین سیرت موجود ہو۔ جس دین کی بنیادوں میں امام حسین علیہ سلام اور شہدائے کربلا کا پاک و پاکیزہ خون موجود ہو اسے کسی اور دین سے خطرہ بھلا کیونکر ہو سکتا ہے۔

ایک دفعہ حضرت امام جعفر الصادقؑ سے کسی شخص نے پوچھا کہ میں تبلیغ کیلئے جا رہا ہوں کوئی ایسا عمل بتائیں جو دین کی تبلیغ کیلئے بہت مفید ثابت ہو تو امام جعفر الصادق نے فرمایا: "زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا تمہیں دین کی تبلیغ کیلئے اپنی زبان استعمال نہ کرنی پڑے"۔ یعنی یہ کہ تم اپنا کردار ہی ایسا پیش کرو کہ لوگ تمہارے دین کو خود بخود سچا دین مان لیں۔

آج بد قسمتی سے مسلمانوں میں عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسلمان نہ صرف غیر مسلموں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں سے بھی مسلکی بنا پر جابجا تعصب اور نفرت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ بات درست نہیں کہ ہمارے ہاں مسلمان علما نے مسلک اور فرقے کی بنا پر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگا رکھے ہیں اور ہر فرقے نے دوسرے فرقے کے خلاف کفر کے فتوے دے رکھے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا ہر فرقہ صرف اپنے فرقے کو حق مانتا ہے اور باقی فرقوں کے لوگوں کو باطل مانتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ فرقے اور مسلک کی بنا پر قتل و غارت تک کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ اس ملک میں کس طرح فرقے اور مسلک کے نام پر قتل و غارت ہوتی ہے، مسجدوں اور جلسوں میں کافر کافر کے نعرے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مساجد میں دوسرے مسلک کے افراد کا داخلہ تک بند ہوتا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یہ تمام تعصب اور تشدد اسلام کی بنیادی تعلیمات ہی کے خلاف ہیں۔ لفظ 'اسلام' جس کا مصدر ہی 'سلم' یعنی سلامتی سے ہے اس کے پیروکاروں میں ایسے تعصب اور تشدد کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نبی رحمت ﷺ سے پوچھا گیا مسلمان کون ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

"جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہیں وہ مسلمان ہے"۔

یعنی مسلمان کے ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچنا تو دور کی بات اس کی زبان تک سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ ان بزرگوں کی اولادیں ہیں جن کے پاس ہندوستان میں رہنے کا آپشن موجود تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے پاکستان میں رہنا قبول کیا تھا اور یہ سب قائد اعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے رہنماوں سے محبت کرتے تھےاور ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ رہنے میں انھیں اور ان کے مذہب کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا تھا: "آپ سب آذاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کیلئے، آپ سب آذاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کیلئے اور کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کیلئے۔ اس مملکت پاکستان میں آپکا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں"۔

لہذا جو لوگ ایک مندر کی تعمیر پر بلا وجہ اس قدر شور کر رہے ہیں وہ نہ تو مکمل اسلامی احکامات سے آگاہ ہیں اور نہ ہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ اسلام کا بنیادی وصف عزت، پیار، محبت، احترام، صبر، رواداری اور برداشت ہے لہذا خدارا اسلام کو حقیقی معنوں میں سمجھنے کی کوشش کریں اور بلاوجہ کے تعصب اور نفرت سے اپنے آپ کو دور رکھیں اسی میں ہماری، ہمارے ملک کی، انسانیت کی اور ہمارے دین کی بھلائی ہے۔ ایک ایسے مسلمان اور پاکستانی بننے کی کوشش کریں جو دوسروں کیلئے فائدہ مند ہو نہ کہ نقصان دہ۔

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:

وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے

دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے

پاکستان زندہ باد