سپریم کورٹ میں شہری کی سم غلط استعمال ہونے کی تحقیقات نا کرنے پر ایف آئی اے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سپریم کورٹ نے شہری عدنان سومرو کی درخواست قانونی نقاط کی عدم موجودگی پر خارج کر دی۔ درخواستگزار نے عدالت کے سامنے استدعا کی کہ میرے نام سے کسی نے سم نکلوا کر غلط استعمال کی۔ ایف آئی اے اور پی ٹی اے میں شکایت درج کرائی پر انہوں نے خاطر خواہ تحقیقات نہیں کی۔ غلط استعمال ہونے والی سم 2018 میں بلاک کر دی گئی۔ جس ہر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کسی کے نام کی سم کا غلط استعمال کرنا جرم ہے۔ انہوں نے درخواست گزار سے پوچھا کہ کیا آپ کا کسی سے کوئی ذاتی تنازعہ ہے؟ عدنان سومرو نے کہا کہ میں پی ایچ ڈی کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں۔ 5 سال سے میرا فون ٹیپ ہو رہا ہے، تنگ کیا جا رہا ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ فون تو سب کے ٹیپ ہوتے ہیں۔ آپ صحافی ہوتے تو عدالت آپ کو تحفظ دینے کی پابند ہوتی۔ صحافیوں کے پاس حساس معلومات ہوتی ہیں، ان کو حراساں کیے جانے پر حفاظت دی جاتی ہے۔ آپ کو کیا پتہ یہاں کس کس کے فون ٹیپ ہو رہے ہیں۔ جس پر عدنان سومرو نے کہا کہ میں نے سرکاری اداروں میں نوکری کی کوشش کی، جو فون ٹیپ کر رہے ہیں وہ کہیں بھی مجھے کام کرنے نہیں دے رہے۔ ہر جگہ کہا جاتا ہے یہ سندھی ہے اسے نوکری نہیں دینی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ سرکار کی نوکری میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم سالوں تک وکیل رہے اور نجی پریکٹس کے بعد جج بنے۔ سائے تلاش کرنے سے بہتر ہے محنت کر لی جائے۔ اس کیس میں کوئی قانونی نقطہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ یاد رہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔