Get Alerts

مریم نواز: پنجاب کی نئی سیاسی آواز اور حکمرانوں کی گھر واپسی، مگر کیسے ممکن ہے؟

مریم نواز: پنجاب کی نئی سیاسی آواز اور حکمرانوں کی گھر واپسی، مگر کیسے ممکن ہے؟
گذشتہ ایک ہفتے سے شہر اقتدار مولانا فضل الرحمان کے ہزاروں کارکنوں کے نرغے میں ہے، 9 جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد بضد ہے کہ وزیراعظم استعفا دیں اور ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔ مگر صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے، جب وزیراعظم عوامی تقریب میں یہ کہتے ہیں کہ ”ان کو این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہو گا، این آر او کسی صورت نہیں دوں گا“۔

یہ بیان احتساب کے جاری عمل کے پس منظر میں مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ کیونکہ، اپوزیشن اور خاص طور پر پنجاب میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کے تمام اہم رہنما نیب مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور نائب صدر مسلم لیگ ن مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی نمایاں ہیں۔

حال ہی میں نواز شریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ نے 8 ہفتوں کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور کی ہے۔ وہ سروسز ہسپتال میں زیر علاج تھے جہاں سے انہیں آج گھر منتقل کیا گیا ہے۔ نوازشریف کی طبعیت سنبھل نہیں پا رہی، تاہم میڈیکل بورڈ سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور اہم پیشرفت یا یوں کہا جائے کہ شریف خاندان کے لئے اطمینان بخش خبر کل لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں میرٹ کی بنیاد پر مریم نواز کی ضمانت منظوری ہے۔ اس سے یقیناَ پارٹی کے اندر نئی روح پیدا ہوگی، کیونکہ جب مولانا کا آزادی مارچ لاہور پہنچا تو قائد ن لیگ کی ہدایات کے برعکس ن لیگ کا کوئی بھی سرکردہ رہنما مارچ کے استقبال کے لئے سٹیج پر نظر نہ آیا۔ اسے شہباز شریف بیانیہ سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اب، ضمانت منظوری کے بعد مسلم لیگ ن اور اپوزیشن دونوں کے لئے صورتحال نے نئی کروٹ لی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مریم نواز آزادی مارچ کے سٹیج سے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر آگے بڑھتی ہیں یا صرف اپنے بیمار والد کی تیمارداری تک اپنے آپ کو محدود کر لیتی ہیں؟

زمینی حقائق تو یہی تقاضا کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن جس ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہے اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مسلم لیگ کے ووٹر میں قیادت کی جانب سے واضح لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے ابہام مزید بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں مریم نواز کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، عوام سے اسی رابطے کو دوبارہ استوار کریں جو 13 جولائی کی رات وطن واپسی پر گرفتار ہونے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔

پنجاب کی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں نئی سیاسی حقیقتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ آنیوالے وقتوں میں پنجاب کے پرانے زمینداروں اور سیاسی گھرانوں کی اجارہ داری کا خاتمہ قریب ہے۔ ان کی سیاسی گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔ ماضی میں ایسی ہی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی تھی جب بےنظیر بھٹو 1986 میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس لوٹی تھیں اور انہوں نے ضیا کی آمریت کے خلاف تحریک کا آغاز لاہور شہر سے کیا تھا، جس میں عوامی سمندر آمڈ آیا تھا۔

اس تناظر میں مریم نواز کی بھرپور سیاسی شرکت مقتدر حلقوں کو اپنی سوچ تبدیل کرنے پر مجبور کرسکتی ہے اور حالیہ 14ماہ میں تحریک انصاف کی حکوت کو جس طرح حمایت دی گئی اور نتیجہ بھی توقع کے عین مطابق نہیں نکلا تو ایسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ ہرگز یہ نہیں چاہے گی کہ پنجاب میں مریم نواز کی صورت میں ایک مضبوط سیاسی آواز کو مزید دیوار سے لگایا جائے۔ بلکہ نئی سیاسی صف بندی کی جائے اور حقیقی اقتدار  کے لئے عوام سے دوبارہ رجوع کیا جائے اور اس مقصد کے لئے سیاسی جماعتوں کو دباؤ میں رکھنے کی پالیسی کے بجائے سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے دیا جائے، یہی پاکستان کی سالمیت کا تقاضا ہے، جس سے جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔

حکمرانوں کو کیسے گھر بھیجا جا سکتا ہے؟

وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ آئینی طور پر ممکن ہے۔ اگر حالات مزید انتشار کی جانب جاتے ہیں تو ایسی صورت میں جمہوریت کی بقا اسی میں ہوگی کہ ایوان کے اندر سے نئے قائد ایوان کا انتخاب کر لیا جائے یا دوسری صورت میں ’متحدہ‘ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے آئے، لیکن ایسی صورت میں مقتدر حلقوں کی حمایت ضروری ہوگی اور یہ تبھی ممکن ہوگا اگر اپوزیشن مشترکہ استعفوں کی جانب قدم بڑھاتی ہے۔ اس لئے اسٹیبلشمٹ یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ ایک ایسے وقت میں جب افغان مفاہمتی عمل جاری ہو اور مشرقی سرحد پر تناؤ کی کیفیت ہو اور بھارت آئے دن ایل او سی کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہو اور مسئلہ کشمیر پر اپنا تسلط وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مضبوط کررہا ہو، پاکستان اندرونی سیاست کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہو جائے۔

ایسے میں قومی اسمبلی کے ذریعے آنے والی تبدیلی ہی موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوسکے گی ورنہ خدشہ ہے کہ ایک بار پھر غیر جمہوری قوتیں سیاسی محاذ آرائی کا فائدہ اٹھا کر 12 اکتوبر کی تاریخ نہ دہرا دیں!

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔