کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟

کیا عمران خان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں؟
سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک طبقہ دشت گردوں کا حمایتی ثابت کرنے کے لئے کمربستہ ہے۔ یہ خود ساختہ لبرل طبقہ ہے جو خود کو روشن خیالی کا علمبردار بھی کہتا ہے۔ یہ عمران خان کو ' طالبان خان' کہتے ہیں اور عمران خان کی مذہب پرستی کو شدت پسندی اور بنیاد پرستی قرار دیتے ہیں۔ اس ساری صورت حال کا اگر غیر جانبدارانہ طریقے سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ عمران خان شدت پسندوں کے حمایتی ہیں کہ نہیں۔

آج تک جس قدر بھی دہشت گردی کے واقعات پاکستان میں ہوئے ہیں، کیا عمران خان نے ان کی حمایت کی ہے؟ جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا اور 100 سے زائد بچوں کی شہادت ہوئی تو عمران خان اس وقت دھرنے پر تھے، انہوں نے اسی وقت دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ عمران خان کا شروع دن سے ایک ہی مؤقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ نہ بنا جائے۔ جب پرویز مشرف نے امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو اس وقت عمران خان ان کے اتحادی تھے اور ریفرنڈم میں پرویز مشرف کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے مگر امریکی جنگ کا حصہ بننے پر عمران خان نے مشرف کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ چاہتے تو مشرف کی مزید حمایت کر کے 2003 کے الیکشن میں فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

عمران خان کا ہمشہ سے ایک ہی مؤقف رہا ہے کہ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔ مذاکرات ہی سب سے بہترین راستہ ہوتے ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی معاملات کو میز پر بیٹھ کر طے کیا جاتا ہے مگر ہمارے لبرل طبقے نے عمران خان کے اس مؤقف کو ان کی جانب سے شدت پسندوں کی حمایت قرار دیا جبکہ دنیا نے دیکھا کہ 20 سال افغانستان میں امریکی فوج رہی مگر آخر میں قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے ہی واپسی کا فیصلہ کیا۔

عمران خان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے اور غیر ملکی افواج کی جانب سے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی مخالفت کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر جو غیر ملکی افواج آپ کی زمین استعمال کرتی ہے تو وہ قوتیں بھی آپ کی دشمن ہو جاتی ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر پچھلے 20 سالوں میں ہمارے 80 ہزار شہریوں اور فوجیوں کی شہادت ہوئی۔ ہمارا کون سے صوبے کا دارالحکومت ہے جو دہشت گردی کا نشانہ نہ بنا ہو؟

عمران خان ہمیشہ ڈرون حملوں کی مذمت کرتے رہے ہیں۔ اس بارے میں عمران خان کا واضح مؤقف یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ خود لڑیں گے اور کون دہشت گرد ہے، کون نہیں اس کا فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے۔ ہر آزاد اور خودمختار ملک اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرتا ہے مگر وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارا حکمران طبقہ ہمشہ سے چچا سام کے بچھائے دستر خوان کا رسیا رہا ہے اور اپنے حصے کی بوٹیاں آپس میں بانٹتا رہا ہے۔ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ، پاکستان کے سیاست دانوں اور ملاؤں نے اپنی بیسار خوری چچا سام کے دستر خوان سے خوب کی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ آج تک ان کو بدہضمی بھی نہیں ہوئی۔ جب ایک وزیراعظم اس دستر خوان کی بساط لپیٹنے کا اعلان کرے گا تو پھر اس کی مخالفت تو ہو گی۔

عمران خان کا وطن عزیز کو چچا سام کی غلامی سے آزاد کرانے کا طریقہ کار غلط ہو سکتا ہے مگر ان کی نیت ٹھیک ہے۔ مراسلہ اور آپریشن رجیم چینج کو بھی مبینہ طور پر درست کہا جا سکتا ہے مگر بیرونی دنیا کے سامنے اس مقدمے کو پیش کرنے کے انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کے ہمدرد سمجھے جانے والے معروف صحافی و اینکر پرسن آفتاب اقبال نے بھی اپنے وی لاگ میں ان کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

اس وقت عمران خان پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں۔ آج الیکشن ہوں تو وہ آسانی سے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنا سکتے ہیں۔ لیکن اب تدبر کے ساتھ ہئیت مقتدرہ اور چچا سام کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے اور ہماری ہئیت مقتدرہ کو بھی عقل کے ناخن لینے کی ضرورت ہے کہ ملک کے سب سے مقبول ترین سیاست دان اور سیاسی جماعت کے ساتھ وہی کچھ کیا جو شخ مجیب الرحمٰن اور عوامی لیگ کے ساتھ کیا تھا تو انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہو گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔