جیسے ہی میں نے موٹر سائیکل نہر والی سٹرک سے شاہراہ علامہ اقبال کی طرف موڑی، میرے موبائل فون کی بیل ہوئی۔ بائیک آہستہ کر کے دیکھا تو رشید مصباح کا فون تھا۔ یہ کال انہوں نے 8 روز قبل کی تھی میں نے موبائل فون اپنے ہیلمٹ میں فکس کیا اور بائیک آستہ آستہ چلاتا رہا اور ان سے بات کرتا رہا۔ ان سے انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے اجلاسوں کے حوالے سے اور ان عہدوں داروں کے حوالے سے بات ہوی جو سجاد ظہیر کی فکری اور نظریاتی اساس کے مخالف ہیں۔
اور بے شرمی سے عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ پھر ان سے ادب پر بات ہوئی۔ انہوں نے میری تیسری افسانوں کی آنے والی کتاب ۔ہجرت۔ کے حوالے سے پوچھا کہ کب تک منظر عام پر آ رہی ہے؟ میرا رشید مصباح سے بہت گہرا تعلق تھا جس کو یاد کرنے کے لئے فلیش بیک کی تکنیک استمال کرتا ہوں۔ قمر یورش نے مجھے سید عظیم سے ملایا۔ جن کی وساطت سے عابد حسین عابد سے ملاقات ہوئی۔ یوں میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور کے اجلاسوں میں شرکت کرنا شروع کر دی۔ وہاں رشید مصباح سے ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ جب میں نے اپنا دوسرا افسانہ انجمن کے اجلاس میں تنقید کے لیے پیش کیا۔
اس اجلاس کی صدارت رشید مصباح نے ہی کی تھی۔ افسانے پر مصباح صاحب نے اپنے روایتی انداز سے خوب تنقید کی۔ میری ساری افسانہ نگاری چوپال سے اٹھا کر باہر پھنک دی۔ جسے ہی اجلاس ختم ہوا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے چلو چاے پیتے ہیں۔
انار کلی کے ٹی سٹال پر بیٹھ کر انہوں نے افسانے کے کرافٹ اور تکنیک پر میری فکری ادبی تربیت شروع کر دی۔ وہاں ہم نے چاے پی اور کھانا کھایا، چند دوست اور بھی ساتھ تھے ۔میں یہاں یہ نہیں لکھوں گا کہ بل کس نے دیا کیونکہ کچھ گھٹیا اور کم صرف لوگ مصباح صاحب کی کردار کشی کر رہے ہیں۔ جب یار لوگ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تو بل ایک کا نہیں سب کا ہوتا ہے ۔ پھررشید مصباح سے ملاقاتیں مسلسل ہوتی رہی میری افسانوں کی پہلی کتاب ۔کون لوگ۔ کی تقریب پذیرائی کے مہان حصوصی وہی تھے۔ جب دوسری کتاب۔
امرتسر 30 کلومیٹر ۔شایع ہوئی تو اس کا مقدمہ انہوں نے ہی لکھا جو میرے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔ ذاتی تعلق ان سے اس قدر گہرا ہو گیا اپنی ازدواجی زندگی کی ناکامی اور طلاق کی خبر سب سے پہلے مجھے بتائی۔ میں ان دنوں روزنامہ خبریں میں تھا۔ پھر چند سال بعد جب انکے فن اور شخصیت پر تحقیقی کتاب شائع ہوی تو وہ بھی خبر میں نے روزنامہ دنیا میں سب سے پہلے شائع کی۔ راشد مصباح کی زندگی کے کی روپ ہیں ۔افسانہ نگار۔کالم نگار۔وکیل ۔استاد۔ٹریڈ یونینسٹ اور سیاسی جماعتوں کے عہدے دار۔ مگر انکی وجہ شہرت بطور افسانہ نگار کہ ہہی ہے ۔
انکے افسانوں کی تین کتابیں، سوچ کی داشتہ، گم شدہ آدمی، اور اکاس بیل ہیں۔ ایک مضامین کی کتاب، تضادات، منظر عام پر آئی مجموعی طور پر 4 کتابیں بن جاتی ہیں جس قدر وہ وسع مطالعہ انسان تھے اس حساب سے یہ کام کم ہے۔ میں اکتر ان سے کہتا کہ مصباح صاحب چھوڑیں یہ بایاں بازو کی سیاست آپ ادیب ہیں۔ آپ کا ان سے کیا لینا دینا جواب میں ایک طویل لیکچر دینے کے بعد کہتے چلو چاے پی لیں ۔ میں نے ان کے ساتھ پندرہ روزہ جریدے۔سائبان۔ میں بھی ایک سال تک کام کیا ہے ہماری نشستیں ساتھ ساتھ تھی دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے تھے۔
سائبان میں انہوں نےقسط وار ناول چندن باہی لکھنا شروع کیا تھا جب انہوں نے سائبان چھوڑا تو وہ ناول شائع ہونا بند ہو گیا بعد میں ان سے میں اکثر کہتا کہ ناول مکمل کریں ایک بار انہوں نے مجھے کہا میں نے ناول پر کام شروع کر دیا ہے خدا جانے وہ ناول مکمل ہوا کہ نہیں۔ ان کے چند افسانے ۔پہاڑ روتے نہیں،برے آدمی کا سچ، رنگ منچ ،سوچ کی داشتہ، بہت بڑے افسانے تھے۔ ادبی اجلاسوں میں جب وہ بول رہے ہوتے تو سب خاموش ہو جاتے۔ صرف مصباح صاحب کی گرج دار آواز گونجتی۔ اپنے اور انکے گہرے تعلقات پر میں سطور بالا میں لکھ چکا ہوں میری زندگی کا سب سے اذیت ناک فیصلوں میں ایک فیصلہ وہ بھی تھا جب مجھے بطور سیکرٹری جنرل انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور انکی ممبر شپ ختم کرنے کی مجلسِ عاملہ کے فیصلے کی توثیق کرنا پڑی۔ بڑا اذیت ناک فیصلہ تھا۔
مگر آفرین ہے رشید مصباح پر کبھی انہوں نے میرے سے اس بات کا شکوہ نہیں کیا۔ پھر جب میں لاھور پریس کلب کی ادبی اور لائبریری کمیٹی کا رکن بنا تو میں نے پریس کلب میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس میں قائم نقوی عاصم بٹ عبدل وحید بھی موجود تھے سیکرٹری جنرل پریس کلب کے کمرے میں ان کو گل دستہ پش کرتے ہوئے میں نے ان کو کہا آج میں نے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے انہوں نے مسکرا کر گلے لگا لیا۔ آج وہ دنیا میں نہیں رہے تو کچھ بونے انکے خلاف بکواس کر رہے ہیں جنکی انکی زندگی میں ہمت نہیں تھی ۔مجھے یقین ہے رشید مصباح جب اوپر آسمانوں پر گئے ہوں گے تو پہلا جملہ ہی بولا ہو گا میں جو بات کرنے لگا ہوں وہ آج سے پہلے یہاں کسی نے نہیں کی۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔