کافی شاپ میں قلندر کی گورے سفارت کار سے ملاقات

کافی شاپ میں قلندر کی گورے سفارت کار سے ملاقات
قلندر کہیں آتا جاتا نہ تھا۔ ساری کائنات اس سے ملنے اس کے آستانے پر آیا کرتی تھی۔ ایک وقت تھا قلندر بہت ساری پارٹیاں، ڈپلومیٹک انکلیو میں فنکشنز، مجرے اور شراب و کباب و شباب کی محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا۔ جب قلندر نے زندگی کا ہر روپ دیکھ لیا، ہر گھاٹ کا پانی پی لیا، ہر گناہ کر لیا تو اس نے یہ راز پایا کہ دلی سکون تنہائی میں ہے، اپنی فیملی کے ساتھ، بیوی بچوں کیساتھ۔ بس پھر قلندر ایک قسم کا pariah بن گیا۔ قلندر کا آستانہ، بچے، اس کا طبلہ اور موسیقی، اس کی کوکنگ جس میں اس نے بہت تجربات کیے، مرید اور وہ دوست یار جو خود چل کر آ جائیں؛ اس کی کل کائنات بن گئی۔

ایسا نہیں تھا کہ وہ ہر دوست کو شرف ملاقات بخشے۔ قلندر میں ابھی تلک کافی arrogance موجود تھی جسے وہ مزید قابو میں لانے کی جہدوجہد کر رہا تھا۔ قلندر کے اندر کی دنیا اسے انسان بننے پر مجبور کر رہی تھی اور وہ پوری کوشش بھی کر رہا تھا انسان بننے کی۔ کبھی کبھار اس کے اندر موجود قدرتی arrogance اس پر حاوی ہو جاتی اور وہ کچھ ایسا کر دیتا جسے وہ بعد میں بہت ہی regret کرتا۔ پھر کوشش کرتا کہ اب arrogance کی ماں بہن ایک کر دیگا۔ کئی بار کر بھی دیتا! کچھ ایسا ہی قصہ پھر ہو گیا۔ ایک گورا سفارت کار قلندر سے بذریعہ surface mail 24 گھنٹے ان ٹچ رہتا تھا۔ ہر پانچ منٹ میں دس دس مراسلے لکھتا تھا۔ ملنا چاہتا تھا مگرچاہتا تھا کہ قلندر آوے کیونکہ سفارتکار ہونے کارن آستانے پر آ نہ سکتا تھا۔ اس نے قلندر کو ایک بے کار سے کافی شاپ پر مدعو کر لیا۔ اس بار قلندر نے اپنی arrogance کو شکست دے ہی دی۔ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ریشماں نے کافی روکا۔ "سرکار آپ کے شایان شان نہیں اس سے ملنے جانا۔ پیاسا کنویں کی جانب آتا ہے۔۔۔"

"بکواس بند کر رنڈی! انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ اس سفارت کار کے کندھوں پر ہر لمحے کراماً کاتبین موجود ہوتے ہیں۔ بیچارہ نیا نیا فارن سروس میں آیا ہے۔ مجھ سے ملاقات کر کے انٹ شنٹ رپورٹ لکھے گا اور فوراً سفیر لگ جاوے گا۔ اسحاقے کنجر کو کہہ کہ میرا گھوڑا تیار کرے۔"
قلندر سفر اپنے گھوڑے پر ہی کرتا تھا۔ کیونکہ ٹریفک کا رش اتنا ہوتا کہ فور ویلر تو پھنس جاوے۔ گھوڑا جست لگا کر یہ جا وہ جا۔

کافی شاپ دیکھ کر قلندر کو مایوسی ہوئی۔ سٹاف انتہائی نکما اور بیزار۔ لگتا ہے مالکان ٹی وی چینل والوں کی طرح تنخواہ نہیں دیتے یا بہت ہی قلیل اور تاخیر سے دیتے ہوں گے۔ قلندر کو بلیک کافی پسند تھی سو وہ ہی منگوائی۔ سفارت کار نے کوئی جوس ووس آرڈر کیا۔ سفارت کار نے آتے ہی پہلا سوال داغا کہ اگلا وزیرِ اعظم کون ہو گا۔

"یہ سامنے جو بھکاری بیٹھا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔ تو بھی ہو سکتا ہے۔ تیرا کزن بھی ہو سکتا ہے۔"
"یہ کیا کہہ رہے ہیں کیلینڈر!" گورے کا تلفظ بہت ہی خراب تھا۔ قلندر کو کیلینڈر بنا دیا۔ لیکن قلندر نے برا نہ منایا۔ آخر اس کی مادری زبان کوئی اردو تھوڑی تھی۔ وہ تو پشتو تھی!

"ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اس ملک میں وہی وزیراعظم بنتا ہے جو دم ہلانے میں ملکہ رکھتا ہو اور دماغ میں بھوسا رکھتا ہو۔ فی الوقت موجودہ وزیر اعظم اس معاملے میں وحدہُ لا شریک ہے!"

"مجھے تو لگتا ہے اگلا وزیر اعظم ڈارک ہو گا۔" گورا بولا۔
"گوری چٹی نانی کو ڈارک قبول نہ ہو گا! نانی سمجھتی ہے کہ وزیر اعظم بننا اس کا پیدائشی حق ہے!" قلندر بولا۔

سفارت کار: "آرمی چیف تو پھر نانی اماں کا ہی بندہ ہو گا؟"
قلندر: "ابے گھامڑ! آرمی چیف اگر تیرے کک کو بھی لگا دیا جاوے تو وہ بھی اپوائنٹ ہونے کے بعد ایک لمحے کی تاخیر کیے بنا اصلی آرمی چیف بن کر دکھاوے گا!"
سفارت کار: "کیسے؟"
قلندر: "ابے تجھے کس جاہل نے فارن سروس میں لے لیا۔ مجھے تو کوئی اپنے ملک کا جیالا یا پٹواری یا یوتھیا لگتا ہے جسے پارٹی نے نوازنے کے لیے سفارت کار تعینات کر دیا۔ کیا تو نے پاکستان کی تاریخ نہیں پڑھی؟ جا جا کر گوگل کر سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور مشرف کو۔ اپنا ہوم ورک کر کے آیا نہیں تو اور میرا ٹیم کھوٹا کر رہا ہے۔ ہر آرمی چیف اورنگزیب ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھیو۔ اب تو پوچھے گا کہ اورنگزیب کون ہے۔ ابے مریم اورنگزیب یا اورنگزیب لغاری کی بات نہیں کر رہا۔ تو گوگل کر ابھی اورنگزیب، شاہ جہاں، دارا شکوہ اور مراد کو۔ جانے کہاں کہاں سے اٹھ کر چلے آ جاتے ہیں!!" (غصے سے!)

سفارت کار: "پھر بھی کچھ تو بتائیے نہ آخر یہ اتنا گھمبیر معاملہ ہے۔ چلیں اپنی ذاتی رائے ہی شئیر کر دیں۔"
قلندر: "اس کا ایک ہی حل ہے۔ آرمی چیف کو تا حیات آرمی چیف ہونا چاہئیے۔ قیاس آرائیوں والا ٹنٹا ہی مک جاوے گا۔"
سفارت کار: "واہ یہ تو بہت ہی پتے کی بات کی۔"
قلندر: "ابھی جا کر ایک قاصد برق رفتار گدھے پر اپنے فارن آفس روانہ کر اور یہ خبر لیک کر، اس سے پہلے کہ یہ نجم سیٹھی کی چڑیا لے اڑے۔ چل بھاگ۔ بل کی فکر نہ کر۔ وہ میں بھر دوں گا!"

سفارت کار کو بھگتا کر قلندر اپنے گھوڑے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ فرشتے نازل ہو گئے۔ قلندر کے لیے نئی بات نہ تھی۔

"ہاں بچو سلونی قبل ان تفقدونی (مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو)" قلندر نے مولا علی کا جملہ دہرایا۔

جوان باتمیز اور دوست قسم کا فرشتہ تھا۔ قلندر کو اچھا لگا اس سے مل کر۔ کچھ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں جب 20 برس پہلے قلندر ان ہی فرشتوں سے اسی جگہ ملا کرتا تھا۔ کچھ اب دنیا میں نہیں۔ کچھ بہت بزرگ ہو چلے۔ قلندر خود بھی بہت بوڑھا ہو چکا تھا۔

"سر یہ سفارت کار ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟" نوجوان کا بچگانہ سوال سن کر قلندر کو گاؤں کے سرپنج اور بھانڈ والا قصہ یاد آ گیا۔ یوں سمجھیں کہ سرپنج بین الاقوامی دنیا اور بھانڈ پاکستان۔

"بھانڈ سرپنج کے پانچ ہزار کا مقروض تھا۔ واپس نہیں کر رہا تھا۔ سرپنج نے ایک دن بھانڈ کی چھترول شروع کر دی۔ محلہ اکٹھا ہو گیا۔ شرفا نے درخواست کی کہ کچھ رقم معاف کر دیں۔ سرپنج نے ہزار روپیہ معاف کر دیا۔ اس وعدے پر کہ باقی رقم اگلے ہفتے دے دے گا۔ بھانڈ تو بھانڈ تھا۔ اگلے ہفتے پھر چھترول۔ پھر محلہ اکٹھا۔ سرپنج سے وہی درخواست اور اس نے مزید ایک ہزار معاف کردیا۔ ہفتے بعد پھر وہی کہانی۔ پھر محلہ اکٹھا۔ سرپنج نے پھر ایک ہزار معاف کر دیا اور اب کہ پوچھا کہ تو ایک بات کر اور سب کے سامنے بتا کہ باقی دو ہزار کب واپس کرے گا۔ بھانڈ بولا مائی باپ تین ہزار تو واپس کر چکا ہوں۔ باقی بھی دھیرے دھیرے کر ہی دوں گا!"

نوجوان فرشتہ کھل کر ہنسا اور بولا کہ سر آپ سے میری کیمسٹری ملتی ہے۔ قلندر دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو دو انسانوں کا تو دل جیتا آج!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔