Get Alerts

کوئی قانون ججوں اور افواج کو حق نہیں دیتا کہ وہ پلاٹ اور زمینیں لیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

کوئی قانون ججوں اور افواج کو حق نہیں دیتا کہ وہ پلاٹ اور زمینیں لیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ بار ہاؤسنگ سوسائٹی کا تفصیلی فیصلہ سنا دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے علاقے موضع طمعہ اور موریاں کے علاقے میں سپریم کورٹ بار ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی جس میں سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء اور ججز کو پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے۔ 14جنوری کو محفوظ کیا جانے والا فیصلہ آج سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سنا دیا۔ تفصیلات کے مطابق عدالت نے کہا ہے کہ یہ پلاٹ قانونی طور پر الاٹ کئے گئے ہیں اور جگہ کی الاٹمنٹ میں سی ڈی اے کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ بینچ کے ممبر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے وہ عدالتی فیصلے اورجسٹس مشیر عالم سے مکمل اتفاق کرتے ہیں تاہم اضافی نوٹ لکھتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ججز اور افواج پاکستان کو ایسے پلاٹ اور مراعات نہیں لینے چاہیئں۔

 جسٹس قاضی فائز عیسی نے اضافی ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین اور صدارتی احکامات کے تحت  معزز جج صاحبان کسی بھی پلاٹ کے حقدار نہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جوڈیشل اکسٹا کوڈ کی تفصیلات دیتے ہوئے لکھا کہ ججز کی مراعات میں تنخواہ، پنشن ،انکی  بیواوں کو پنشن دینے کا استحقاق و دیگر مراعات شامل ہیں مگر انہیں پلاٹ دینے کا اضافی کوئی استحقاق کہیں بھی شامل نہیں۔



 

انہوں نے مزید لکھا کہ اگر ججز حکومتی اور دیگر پرائیویٹ اداروں سے پلاٹ لیں گے تو اس سے انکی غیر جانبداری پر سوال اٹھےگا اور وہ اپنے حلف سے رو گردانی کے مرتکب ٹھہریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ہاؤسنگ سوسائٹیز سے اگر پلاٹ لینا مقصود بھی ہو تو ایک سے زیادہ پلاٹ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے اور جو بھی پلاٹ لینے کا خواہش مند ہے اسے بغیر کسی اضافی سہولت ،مساوانہ طور پر پلاٹ کیلئے رقم دینی چاہیئے اورمکمل قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اپنی باری کے انتظار کرتے ہوئے یہ زمین یا پلاٹ حاصل کرنا چاہیئے۔



انہوں نے لکھا کہ حکومت کوئی بھی سرکاری یا نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا آغاز کرے تو چھوٹے افسران کو اس سہولت سے فائدہ پہنچانا چاہیئے کیونکہ آئین پاکستان کے تحت تمام سرکاری ملازمین چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے انکا ایک ہی مرتبہ اور مقام ہے ۔آئین پاکستان ملازمین میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتا۔



جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی اضافی ریمارکس کے دوران لکھا کہ عاملہ کے دیگر اداروں کی طرح افواج پاکستان ، جن میں آرمی، نیوی، رینجرز،  فرنٹئیر کورز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے ملازمین شامل ہیں کو آئین پاکستان گھریلو، کمرشل یا زرعی زمین لینے کی اجازت نہیں دیتا اور نا ہی فوج میں موجود سینئر افسران کو ترقی کے ساتھ پلاٹ، کمرشل زمین یا زرعی زمین حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ انہوں نے جنرل آصف نواز کے بھائی کی کتاب کا حوالہ دیتےہوئے لکھا کہ جنرل ایوب خان نے جنرل گریسی سے پلاٹ کی استدعا کی مگر جنرل گریسی نے انکی ملامت کی اور یوں قوم کے سپوت کو ایک پلاٹ سے محروم کر دیا گیا۔ انہوں نے شجاع نوازہی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پلاٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم ایک بہت عام رواج بن چکا ہے ۔ملٹری اور بیروکریسی کو نوازنا پاکستان میں ایک رسم بن چکی ہے ۔ایسا ہوتا رہا اسی لئے زمین چند ہاتھوں میں مرتکب ہو کر رہ گئی اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔



جسٹس فائز عیسی نے سول سروسز آف پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہر سول اور ملٹری کا ملازم پاکستان سول سروس کا ملازم ہے۔ آئین پاکستان میں سول اور ملٹری ملازم کا کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے لکھا کہ پاکستان کے شہری ان تمام سروسز کیلئے ٹیکس دیتے ہیں۔ اسی لئے ان سروسز دینے والوں پر قانون کا اطلاق ناگزیر ہے۔

 



اپنے اضافی ریمارکس میں انہوں نے مزید لکھا کہ نجی اور عوامی مفادات کا تحفظ کرنا جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کئی دفعہ نجی مفادات عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر دئیے جاتے ہیں جو جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اشرافیہ صرف آمرانہ طرز حکمرانی میں ہی نہیں بلکہ جمہوری حکومت میں بھی فائدہ حاصل کرتی ہے۔



جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس لکھتے ہوئے کہا کہ بہت سے پاکستانی چھت حاصل کرنے کیلئے پوری زندگی محنت کرتے ہیں۔ تاہم ججز اور آرمی افسران انعامات کے طور پر شہری علاقوں میں پلاٹ اور رہائشی زمینیں حاصل کرتے ہیں مگر وہاں رہتے نہیں ۔علاوہ ازیں آرمی افسران کی جانب سے جو زرعی رقبہ حاصل کیا جاتا ہے اسے بھی آگے بیچ دیا جاتا ہے۔  اسکا مطلب ہے کہ انہیں ان کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ آرمی کی بنائی گئی ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی کا مقصد افسران کو بہتر اور مفید رہائشی منصوبے سے مزین کرنا تھا مگر بہت سے افسران نے انفرادی طور پر وہی زمین آگے مہنگے داموں میں بیچ دی جاتی ہے جس سے آرمی کو بحثیت ادارہ نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے حاصل ہونے والے منافع کا کوئی ٹیکس نہیں دیا جاتا جو زمینیں عوام کے ٹیکس کی رقم سے انکو لاٹ کی جاتی ہیں۔ بہت سے سینئر افسران ان اثاثوں ( جو کہ حقیقت میں ملک کے اثاثے ہیں) کو بیچ کر بیرون ملک کرنسی میں تبدیل کر لیتے ہیں، اسے باہر بھیجتے ہیں اور بیرون ملک پرائم لوکیشن پر گھر اور اپارٹمنٹ خرید کر پر آسائش زندگی گزارتے ہیں۔



 

کیس کے تفصیلی ریمارکس میں انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں عوامی مفادات اور افادیت کیلئے زمین دستیاب نہیں مگر افسران کو دینے کیلئے دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی مقصد عام لوگوں کی فلاح و بہبود ہے۔ ریاست کی زمین صرف عوامی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ حکومتی زمین صرف سرکاری ہسپتال، ڈسپنسریوں، قبرستانوں، تھانوں، اسکولوں، کالجوں، پارکوں، یونیورسٹیوں، کھیل کے میدانوں، اولڈ ایج پومز، بس اور ریلوے سٹیشنز، آبی ذخائر، ندیوں، اور دیگر عوامی مقاصد کیلئے ہی استعمال کی جانی چاہیئے۔ بلکہ یہ زمین پرندروں اور جانوروں کیلئے ہسپتال بنانے کیلئے استعمال کی جائے تاکہ قدرت کے دئیے وسائل تمام جانداروں میں برابری کی سطع پر تقسیم کئے جا سکیں۔



اپنے ریمارکس میں انہوں نے اسلامی فلاحی ریاست کے بنیادی اجزاء کا ذکر کیا جس کے تحت ریاست کی ذمہ داری میزان قائم کرنا اور امہ کی کلی بہتری کیلئے منصوبے تیار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کو یہ جاننے کا مکمل حق ہے کہ ان کے ٹیکسوں کے پیسے کا استعمال کہاں کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں کوئی بھی بات صیغہ راز نہیں ہونی چاہیئے کہ حکومت نے کس کو کتنی زمین دی۔ عوام کو مکمل استحقاق حاصل ہے کہ وہ جان سکیں کہ پاکستان کے آئینی عہدوں ہر فائز ذمہ داران کیا کر رہے ہیں۔ ان سے کچھ بھی چھپانا انکا اعتماد کھو دینے کے مترادف ہے۔ آئین کا آرٹیکل19-A ہر پاکستانی کو معلومات کی رسائی کی آزادی دیتا ہے اور اللہ تعالی کا حکم ہے کہ صدقے اور خیرات کے علاوہ کوئی کام بھی چھپ کر نہیں کرنا چاہیئے۔

اپنے ریمارکس کے  آخر سے قبل پیراگراف میں انہوں نے قائداعظم کے اقوال کو بیان کیا جس میں انہوں نے پاکستان کو ایک جمہوری اور فلاحی اسلامی ریاست سے تعبیر کیا تھا۔ انہوں نے قائداعظم کے 11اکتوبر 1947 میں سول اور ملٹری افسران سے خطاب کی چند سطریں بھی لکھیں۔ انہوں نے لکھا کہ قائداعظم نے پاکستان بنانے کا جو مقصد طے کیا تھا وہ آزادانہ طور پر اپنے عقائد کی فرمانروی اور اور معاشی  نا ہمواری اور استحصال  کو ختم کرنا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس کے آخر میں  لکھا کہ پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد کرنے والوں نے ایک انچ بھی رقبہ حاصل نا کیا بلکہ بہت سے لوگ اپنی زمینیں چھوڑ کر اس ملک میں آئے ۔بہت سوں نےاپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے اس ملک کو تعمیر کیا۔ کیونکہ انکی خواہش صرف عوام کی خدمت کرنا تھا۔ لہذا ہمیں کسی بھی انعام یا مراعات کے بغیر خدمت خلق کے جذبے کے تحت اپنے فرائض سر انجام دینے چاہیئں۔ 

 

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔