Get Alerts

عمران خان لانے والوں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اس نظام کی کامیابی یا ناکامی کا سہرا مشترکہ ہوگا

عمران خان لانے والوں کو واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اس نظام کی کامیابی یا ناکامی کا سہرا مشترکہ ہوگا

عمران خان کے سیاست میں آنے سے ذرا پہلے ان کا نعیم بخاری کے ساتھ انٹرویو سنا۔ موصوف فرما رہے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن میں اس حد تک تناؤ ملک کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے اور یہ کہ کوئی حکومت ان حالات میں نہیں چل سکتی۔ یعنی عمران خان کو اگر اس وقت ایسے انجام کا ادراک تھا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بطور وزیراعظم ان زمینی حقائق کو وہ اب بھول چکے ہوں۔ ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت کو سنبھالنا ناممکن ہے لیکن کوئی تو ایسا معاملہ ہے جس کی وجہ سے عمران خان مختلف راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اقتدار میں موجود ہر سیاسی پارٹی چاہتی ہے کہ اپوزیشن کا اتحاد قائم نہ ہو سکے اور اگر اپوزیشن سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کی کوشش کرے تو حکومت ہمیشہ اس درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔


لیکن حکومت کے تمام ترجمان بشمول عمران خان ہر وقت اپوزیشن کو مزید بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ عمران خان کے مہربان پچھلے کچھ عرصے سے انہیں یہ سمجھا کر تھک گئے ہیں کہ حکومت چلانے پر توجہ دیں تاکہ اس ہائبرڈ نظام کی کوئی کامیاب شکل صورت نکل سکے لیکن وہ تو عثمان بزدار کو بھی نہ بدل سکے۔ پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی دے کر ملک چلانے کے دعوے کب کے ہوا ہوئے لیکن عمران خان بدستور اپوزیشن رہنماؤں حتی کہ اپنی مخالف پارٹیوں کے ایم پی ایز پر طرح طرح کے مقدمے بنوانے میں مصروف ہیں۔  نیب اور ایف آئی اے کے بعد اب اینٹی کرپشن پنجاب اور پولیس کو بھی اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔


اپوزیشن کے جلسوں سے پہلے اور بعد میں جو زبان استعمال کی گئی اور جلسے ناکام بنانے کیلئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے اس سے یہی لگتا ہے کہ عمران  خان کسی مفاہمت کے حق میں نہیں بلکہ موجودہ سیاسی تلخی کو دشمنی بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہیں ملک میں آٹے اور چینی کے بحران میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایل این جی کی خریداری میں تاخیر کیوں ہوئی۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا کر کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کی تحقیقات میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔صبح گیارہ سے چار بجے تک ترجمانوں کی فوج کے ہدایات بھرے اجلاس کے علاوہ عوام کو مختلف ڈرامے دیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور شام ہوتے ہی خود ڈراموں سے محظوظ ہونے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن سمیت اہم عہدوں پر موجود محسنوں کے خلاف سازشوں کے جال بنے جاتے ہیں ۔شہبازشریف کو مفاہمت اورسمجہوتوں سمیت پوری ضد سے جیل پہنچا کر  عمران خان نے ن لیگ کی قیادت نوازشریف اور مریم نواز کو واپس دلانے میں جنگی کردار ادا کیا۔پیپلز پارٹی سے ہر لمحے امید ہوتی ہے کہ دوبارہ اچھا بچہ بن جائے لیکن ایسا امکان جب بھی پیدا ہوتا ہے عمران ن لیگ کے ساتھ آصف زرداری پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں۔


حالانکہ اس ہائبرڈ نظام کو مسلط کروانے میں آصف زرداری کا بڑا تعاون شامل ہے۔ یاد کیجئے کہ بلوچستان حکومت کیسے گری اور سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں آصف زرداری نے کس طرح اس نظام کو مسلط کرنے والوں کی مدد کی اور عمران خان کے لئے اقتدار کا حصول ممکن  بنایا۔مینار پاکستان گراؤنڈ میں پانی چھوڑنے سے لے کر خارجہ پالیسی کے محاذ تک عمران خان ہر جگہ وہ لائن لے رہے ہیں جو ان کی تصادم کی سیاست کو تقویت دے سکے اور اس سے خطرناک کام ہو نہیں سکتا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تو ناراض ہوئے ہی تھے اب عمران خان نے ایڈیٹرز پر یہ انکشاف بھی کر دیا کہ ان کے خلاف باہر سے سازش ہورہی ہے اور سب کو پتہ ہے وہ کس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔


عمران کو بڑے چاؤ سے اقتدار میں لایا گیا تھا۔امید تھی کہ آزمودہ نسخہ اس دفعہ تو ضرور کامیاب ہوگا۔پہلے سے زیادہ اقتدار اپنے ہاتھ میں ہوگا اور نواز شریف کی جگہ پنجاب سے ہی نیا پاپولر سیاستدان بھی  تیار ہو جائے گا۔ لیکن جلدی میں ایسی فاش غلطیاں سرزد ہو گئیں جو کہ پہلے تجربات میں بھی نہ ہوئی تھیں۔ایسے کسی مصنوعی نظام میں منظم مذہبی سیاسی جماعتوں کا حصہ یقینی بنایا جاتا ہے لیکن تحریک لبیک کے علاوہ سب کا حصہ پی ٹی آئی لے اڑی۔ چونکہ ن لیگ کو اقتدار سے باہر کرنے کیلئے ہمیشہ کی طرح کرپشن اور اس کی وجہ سے خراب معیشت کا بیانیہ سکیورٹی رسک کے تڑکے کے ساتھ تیار کیا گیا اس لئے اس بیانیہ کو سچ ثابت کرنے میں نوازشریف اور ان کے خاندان کا زد میں آنا قدرتی امر تھا۔اس لئے نوازشریف اور مریم نواز بمعہ بقیہ قیادت جیلوں کے سپرد کر دئے گئے۔مریم نواز اسی قید کے دوران خفیہ کیمرے نصب ہونے کا ذکر کرتی ہیں جس کا ذکر اسی ہائبرڈ نظام کے بطن سے پیدا ہونے والا "آزاد میڈیا " کرنے سے عاری ہے لیکن ابھی اور بہت سی دھمکیوں کے انکشافات ہونے کو ہیں۔


رفتہ رفتہ یہ نیب کاریاں پوری اپوزیشن تک پھیل گئیں۔ اس کے باوجود ن لیگ سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مختلف معاملات پر تعاون کرتی رہیں لیکن جب اصرار بڑھا کہ ہماری "فخریہ پیشکش" کو انہی شرائط پر قبول کیا جائے تو حالات بدلنے لگے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوآ تھا کہ سلیکٹرز  ایک ہی ٹوکری میں انڈے رکھنے پر بضد ہوں لیکن یہ سب بھی باہمی مفادات نے ممکن بنا دیا۔ جب سرعام اصرار ہوا کہ عمران خان ہمارا پروجیکٹ ہے اور ہم اسے چلائیں گے تو اس طرزعمل سے وزیراعظم کے عہدے کا قد بہت چھوٹا ہو گیا۔ عمران خان کو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طے ہی ایسے ہوآ تھا لیکن پے درپے ناکامیوں نے سلیکٹرز کو یہ احساس دلایا کہ مفاہمت ہونا بہت ضروری ہے ورنہ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ اسٹیبلشمنٹ نے کوشش کی کہ اب عمران خان ہمارا دفاع کریں لیکن عمران خان چاہتے ہیں کہ معاملات ایسے ہی چلیں جیسے طے کئے گئے  تھے اور ان کا دفاع بھی اسٹیبلشمنٹ کرے اور اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگانے میں بھی ایک ہی صفحے پر ہونا یقینی بنایا جائے۔ 


بس اسی ایک صفحہ کے چکر نے سب معاملات بگاڑ دیے اور عمران کی پالیسی کامیاب ہوتی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عوام نے ایک صفحہ کے کرداروں کے نام لینا شروع کر دئے کیونکہ ناکام نظام کی براہ راست تکلیف انہیں پہنچ رہی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں تو اس لئے نام  لینے پر مجبور ہوئیں کیونکہ اس صورت میں انہیں عوام اور سیاست سے کٹ جانے کا احتمال پیدا ہوگیا تھا۔ اسی لئے بات اب استعفوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو جان سے مارنے کی دھمکیوں تک آ پہنچی ہے۔جیسے جیسے اپوزیشن  طاقت حاصل کر رہی ہے ویسے ہی دوسرے فریق کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہاں مکمل طاقت کسی ایک کے پاس نہیں ہے۔ مفاہمت اور مستقبل کیلئے وعدے وعید کی شنید ہے لیکن سیاستدانوں سے اپنے روابط کو طشت از بام کرنے کا فیصلہ سب دروازے بند کر چکا۔ اب اعتماد سازی کیلئے بہت سارا وقت اور سمجھوتے درکار ہوں گے اور


ایسے کسی مفاہمتی عمل کو عمران خان اپنے لئے بجا طور پر خطرہ سمجھتے ہیں۔انہیں ستر سالہ تاریخ سے اندازہ ہے کہ ایسے کسی عمل میں سلیکٹڈ کی چھٹی لازمی ہے۔ اسی تاریخ سے انہوں نے یہ نیا سبق سیکھا ہے کہ سلیکٹرز کیلئے بھی تمام دروازے بند ہو جائیں اور ان کے پاس عمران خان کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچے۔ انہیں اصرار ہے کہ وہ دس سالہ پراجیکٹ کے تحت انہی شرائط کے تحت آئے تھے اب وہ نئی شرائط طے نہیں ہونے دیں گے۔ اسی لئے تو وہ کبھی اپنے فون ٹیپ ہونے کا ذکر کرتے ہیں اور اسے جائز بھی قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خالد بن ولید کی دوران جنگ معزولی کے قصے بھی سناتے ہیں اس کے علاوہ وہ اپوزیشن سے اسٹیبلشمنٹ کے رابطوں پر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔


کوئی مانے یا نہ مانے وہ مقتدر حلقوں پر اپنے بہادر اور ضدی ہونے کا تاثر کامیابی سے قائم کر چکے ہیں۔ان کی حکومت ہر وقت نازک حالات سے گزر رہی ہوتی ہے لیکن وہ ایک صفحے کے تاثر کے ذریعے اس معاملے پر بھی کامیاب ہیں کہ اپوزیشن براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آ جائے ۔انہیں بخوبی علم ہے کہ حکومت ان کے بس کا کام نہیں اور سیاسی عدم استحکام میں تو بالکل بھی نہیں لیکن اس تاثر کو قائم رکھنے میں وہ پھر کامیاب ہیں کہ اپوزیشن کے دباؤ کی صورت میں صرف وہ نہیں اس نظام کے تمام کردار جائیں گے لہذا اس دس سالہ پراجیکٹ کو بچانے کیلئے سب ایک صفحہ پر رہیں۔ عمران خان کے سلیکٹرز بے شک ان سے خوش ہوں لیکن چوک چوراہوں میں موضوع گفتگو بننا انہیں گوارا نہیں۔لیکن کیا عمران خان نے ان کیلئے کوئی راستہ چھوڑا ہے۔ہماری پوری تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ پر ایسا وقت کبھی نہیں آیا تھا اور جس طرح عمران خان یہ معاملات چلا رہے ہیں ایسی توقع اسٹیبلشمنٹ نے کبھی اپنے مخالفین سے بھی نہیں رکھی تھی ۔ عمران خان اپوزیشن کی بےعزتی کر کے اور تصادم کی بھرپور کوشش سے اپوزیشن کی تحریک  میں دخل نہ دینے کی یقین دہانی کو ناکام کر چکے ہیں۔


عمران خان اپنے رویہ اور باتوں سے واضح پیغام دے رہے ہیں کہ اس نظام کی کامیابی یا ناکامی کا سہرا مشترکہ ہوگا۔صرف وہ قربان نہیں ہوں گے بلکہ اس صورت میں یہ نظام اور اس کے تمام خالق فارغ ہوں گے۔ اگر ان کا یہ پیغام سنجیدہ نہ لیا گیا تو وہ ضرور ایسے حالات پیدا کریں گے جس سے لانگ مارچ یا دھرنے کا رخ اسلام آباد کی بجائے کہیں اور ہو۔معین اختر نے کتنا عرصہ پہلے کہا تھا کہ سلیکٹر بنو تم, سلیکٹر بنیں ہم۔


کہا عمران کا ڈر ہے کہا عمران تو ہوگا۔ بس یہی بات عقلمند لوگ وقت سے پہلے نہ جان پائے۔ اب جمہوری نظریہ اور نظریہ ضرورت والوں کی تقسیم بہت واضح  ہو چکی اور اس کا کریڈٹ عمران خان کو نہ دینا زیادتی ہوگی۔نیشنل ڈائیلاگ کی باتیں بھی بہت ہو رہی ہیں لیکن یہ فرار کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ بقول جنرل درانی ہمارے پاس ایسا کوئی بڑا نہیں بچا جو یہ ڈائیلاگ کروا سکے اور  فیصلوں کا ضامن بھی بن سکے۔ ایسے حالات میں ہونی کو کون ٹال سکتا ہے