Get Alerts

خطرات کے واضح اشارے نظر آ رہے ہیں: کیا کوئی متوجہ ہے؟

خطرات کے واضح اشارے نظر آ رہے ہیں: کیا کوئی متوجہ ہے؟
آسیہ بی بی کھیتوں میں کام کرنے والی ایک غریب عورت ہے جسے سپریم کورٹ نے تقریباً ایک دہائی بعد توہین رسالت کے الزام سے بری قرار دیتے ہوئے رہائی دے دی۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے توہین مذہب کے مرتکب ملزم کو بیگناہ قرار دیا ہو۔ اس فیصلے کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ جلد ہی ملک میں توہین مذہب کے بنائے گئے قوانین جو کہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں کا ازسر نو جائزہ لینے کیلئے ایک تعمیری اور سیر حاصل بحث کا آغاز ہو جائے گا۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہرگز بھی غیر متوقع نہیں تھی اور توقعات کے عین مطابق تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی گروہوں نے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے آسیہ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ریاست سے بھی اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس عدالتی فیصلے کے چند روز کے بعد ہی اس مسرت اور خوشی کی کیفیت کا تب خاتمہ ہو گیا جب ریاست شدت پسندوں کے مطالبات کے آگے جھک گئی۔

سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آنے کے کچھ ہی دیر بعد بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مولویوں اور ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے اپنے سپورٹرز کو سڑکوں پر مظاہروں کیلئے جمع کرنا شروع کر دیا۔ یہ مظاہرے پرتشدد تھے جن کے دوران مسلح افواج کے کمانڈر (آرمی چیف) کو ہدف تنقید بناتے ہوئے دیگر جرنیلوں سے ان کے خلاف بغاوت کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جج حضرات کو بھی دھمکیاں دی گئیں اور مظاہروں کی قیادت کرنے والے مولویوں نے ججوں کے گھروں میں کام کرنے والے افراد کو انہیں قتل کرنے کیلئے بھی اکسایا۔ عمران خان کو بھی یہودی ایجنٹ قرار دیا گیا اور ان کی حکومت کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ جونہی مظاہروں اور گالم گلوچ میں شدت آئی تو وزیر اعظم عمران خان نے ٹی وی پر آ کر قوم سے خطاب کیا اور قوم کو یہ یقین دلایا کہ وہ ریاست کی رٹ بحال کرتے ہوئے قانون کے مطابق شرپسند مظاہرین سے نمٹیں گے۔ اس کے فوراً بعد عمران خان چین کے دورے پر تشریف لے گئے اور ابھی تک کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں ان مظاہروں پر قابو پانے کی ذمہ داری کس کی تھی۔

https://www.youtube.com/watch?v=BAOj7D5KUbo

دھرنوں، سڑکیں بند کرنے اور پر تشدد واقعات کا سلسلہ مزید ایک دن اور جاری رہا اور بالآخر تحریک لبیک نے حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے بعد اپنے کارکنوں کو بتایا کہ معاِہدے کے مطابق آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی جس کی راہ میں حکومت رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کیلئے حکومت کی جانب سے قانونی کارروائی کا آغاز بھی کیا جائے گا۔ یہ نکتہ نہ صرف انتہائی مضحکہ خیز ہے بلکہ قانون کے خلاف بھی ہے۔ آخر کسی بھی ایسے شہری جس کے خلاف عدالت میں کوئی مقدمہ قائم نہ ہو اسے ملک چھوڑنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ شدت پسندوں کے مطالبات کو مان کر حکومت پاکستان نے فرقہ وارانہ اجتماع اور مظاہروں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات اور مضمرات پر بھی چشم پوشی اختیار کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ سے ہر غیر مسلم پاکستانی جسے بھلے ہی عدالت نے بے گناہ قرار دیا ہو اسے بلوائیوں اور پرتشدد ہجوم کا ہر حال میں سامنا کرنا پڑے گا۔
80 کی دہائی سے بریلوی مکتبہ فکر پر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی مومنٹ کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں 90 کی دہائی تک اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعتیں تھیں لیکن پھر ان کی دوریاں اسٹیبلشمنٹ سے رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہو گئیں۔

تحریک لبیک کا پروان چڑھنا بریلوی مکتب فکر کی سیاسی میدان میں پھر سے انٹری کا بھی باعث بنا ہے۔ 80 کی دہائی سے بریلوی مکتبہ فکر پر پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز اور سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی مومنٹ کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں 90 کی دہائی تک اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعتیں تھیں لیکن پھر ان کی دوریاں اسٹیبلشمنٹ سے رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہو گئیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں بتدریج یہ سیاسی مظرنامہ تبدیل ہونا شروع ہوا اور پھر یکسر بدل گیا۔ نواز شریف کی اقتدار سے تیسری مرتبہ بے دخلی اور 2017 میں متحدہ قومی مومنٹ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد یہ تقسیم شروع ہوئی۔ تحریک لبیک کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے پاکستان مسلم لیگ نواز کے پنجاب کے ووٹ بنک کو توڑنے کیلئے لانچ کیا گیا اور اس کے ذریعے شارٹ ٹرم اہداف حاصل کر لیے گئے۔



سب سے پہلے تحریک لبیک کو استعمال کر کے نومبر 2017 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو مفلوج بنا دیا گیا اور پھر ختم نبوت کے مسئلے کو انتخابی مہم کا حصہ بنا دیا گیا۔ چونکہ مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں سابق گورنر پنحاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی تھی اس لئے مسلم لیگ نواز اس ختم نبوت کے مسئلے کی وجہ سے بیک فٹ پر چلی گئی۔ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے چند رہنماؤں نے بھی اپنے انتخابی حلقوں میں ووٹرز کو راغب کرنے کیلئے ختم نبوت کے کارڈ کا استعمال کیا۔ جب عام انتخابات کا موقع آیا تو تحریک لبیک نے مسلم لیگ نواز کو دس سے بیس نشستیں ہروانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تحریک لبیک 22 لاکھ ووٹ حاصل کر کے پنجاب میں تیسری بڑی انتخابی قوت بن کر ابھرنے میں بھی کامیاب رہی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی سے بھی بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری۔

لیکن پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں مذہب کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنے کی حکمت عملی ہمیشہ الٹی اور ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مذہب کا کارڈ 70 کی دہائی میں اپنے مشکلات میں گھرے عرصہ اقتدار کے دوران استعمال کیا۔ پارلیمنٹ کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا اور بعد میں بھٹو کی اسلامائزیشن کی مہم ضیاالحق کے مارشل لا اور اس کے بنیاد پرست خیالات کو ملک پر لاگو کرنے کا مؤجب بنی۔ ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے باہر کرنے اور اسے سولی چڑھوانے میں دائیں بازو کے افراد اور جماعتوں کا کلیدی کردار تھا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دو دہائیوں کے بعد خود نواز شریف کو توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف فتوے بھی جاری کیے گئے۔ مذہب کا استعمال محض ملکی سیاست پر اثر انداز ہو کر حسب منشا نتائج حاصل کرنے کیلئے ہی نہیں کیا جاتا رہا بلکہ خارجی محاذ پر اس کا استعمال زیادہ شدت سے کیا گیا ہے۔

نوازشریف نے اس ریت کو جاری رکھتے ہوئے اپنے دور اقتدار میں توہین مذہب کے قوانین میں مزید کڑی ترامیم شامل کیں جن میں سے ایک سزائے موت بھی تھی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دو دہائیوں کے بعد خود نواز شریف کو توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف فتوے بھی جاری کیے گئے۔ مذہب کا استعمال محض ملکی سیاست پر اثر انداز ہو کر حسب منشا نتائج حاصل کرنے کیلئے ہی نہیں کیا جاتا رہا بلکہ خارجی محاذ پر اس کا استعمال زیادہ شدت سے کیا گیا ہے۔

جماعہ نعیمیہ میں نواز شریف پر ایک متشدد بریلوی کی جانب سے جوتا پھینکے جانے کا ایک منظر


1979 میں افغانستان پر سوؤیت یونین کی چڑھائی اور ایرانی انقلاب کے بعد ریاست پاکستان نے غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کا سلسلہ شروع کیا اور جہاد کا بیانیہ اس ضمن میں تشکیل دیا گیا۔ جس نے قومی مفاد کے ساتھ ساتھ قریبی ساتھیوں سعودی عرب اور امریکہ کے مفادات کا بھی خوب تحفظ کیا۔ افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین 90 کی دہائی میں طالبان میں تبدیل ہو گئے جبکہ شیعہ مخالف مختلف چھوٹے چھوٹے گروہوں نے ایرانی اثر و رسوخ کو ملک میں پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ ان میں سے کچھ مجاہدین بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ میں بھی معاون ثابت ہوئے۔



ان غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کی قیمت عام پاکستانیوں کو ادا کرنی پڑی۔ 911 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ اثاثے بوجھ بن گئے اور طالبان نے پاکستانی شہریوں اور افواج پر حملے کرنا شروع کر دیے۔ ان اثاثوں کو تلف کرتے کرتے پچھلے دس سالوں میں پچاس ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی کرنے کی ان پالیسیوں کو محض چند سال قبل ہی تبدیل کیا گیا تھا۔ فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف پولیس اور فوج کی مدد سے آپریشن کیے گئے۔
تحریک لبیک ایک طاقتور مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کو سنی مکتبہ فکر کے اس حصے کی تائید حاصل ہے جو بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور توہین مذہب ایک ایسا جذباتی مسئلہ ہے جو اس بیانئے کو تقویت دیتا ہے کہ مغرب پوری دنیا میں اسلام مخالف اور مسلم دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

اس تمام عرصے کے دوران ریاست نے دیو بندی مکتبہ فکر پر انحصار کرتے ہوئے جہاد کی سلفی تشریحات کو خارجہ محاذ پر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے نتھی کر رکھا تھا۔ اس دوران بریلوی مکتبہ فکر مکمل طور پر اس کھیل سے باہر رہا۔ رفتہ رفتہ ملکی سیاست کے میدان میں مرکزی مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان) کی سیاسی پوزیشنیں کمزور ہونا شروع ہوئیں، کیونکہ خیبر پختونخواہ میں ان کے روایتی ووٹر بتدریج تحریک انصاف کے شفاف حکومت اور معاشی ترقی کے نعروں کی جانب راغب ہونا شروع ہو گئے۔ چونکہ مقتدر قوتوں کا دیوبندی گروہوں کے ساتھ اتحاد ختم ہو رہا ہے اس وجہ سے تحریک لبیک کو مزید طاقت حاصل کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔ تحریک لبیک ایک طاقتور مذہبی سیاسی جماعت ہے جس کو سنی مکتبہ فکر کے اس حصے کی تائید حاصل ہے جو بریلوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور توہین مذہب ایک ایسا جذباتی مسئلہ ہے جو اس بیانئے کو تقویت دیتا ہے کہ مغرب پوری دنیا میں اسلام مخالف اور مسلم دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں ایک ہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "مذہبی شدت پسندی کا فروغ چاہے وہ سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں سے ہو یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں، دونوں ہی صورتوں میں نقصان دہ اور بیحد مہنگا ثابت ہوتا ہے"۔ تحریک لبیک کا دوسرا دھرنا اور اس دوران کھلے عام ریاست کو دھمکیاں دینا اس ضمن میں ناقابل تردید ثبوت ہے۔ تحریک لبیک کی سیاست میں پراکسی کے طور پر شمولیت ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس جماعت کی ایک بڑی سپورٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو پچھلے کچھ دنوں میں ہمیں ہنگاموں کے دوران دیکھنے کو بھی ملی۔ نظریاتی اساسوں اور بنیادوں میں ضیا کے بعد شدت پسندی قوانین، عدالتی فیصلوں، انتظامیہ کے احکامات، نصابی کتابوں، میڈیا کے بیانیوں کی صورت میں شامل ہو گئی۔ اور یہ تاثر کہ پاکستان کے مستقبل کی ضمانت مکمل طور پر اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی صورت میں ہے کئی نسلوں کی برین واشنگ کا باعث بنا۔ عمران خان کا پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ بھی دراصل اسی مقبولیت پرست (پاپولسٹ) رجحان کی تقلید ہے۔ آسیہ بی بی کی بریت دراصل ہمیں ایک فیصلہ کن موڑ پر لے آئی ہے۔ اگر پارلیمان میں بیٹھی سیاسی اشرافیہ، فوج اور عدلیہ شدت پسندی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں متحد ہو کر ملک کیلئے ایک نئی سمت کے رخ کا تعین کرنا ہو گا۔ بصورت دیگر تشدد سے بھرپور مناظر، انتشار اور ریاستی اداروں کو دھمکیاں مستقبل کی صورتحال کی جانب واضح اشارے دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔