پاکستان کے بیش تر علاقے ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں، ان تبدیلیوں نے آزاد کشمیر کے شعبہ زراعت کو بھی بے حد متاثر کیا ہے۔ وقت پر بارشوں کا نہ ہونا، بے موسمی تیز بارشیں، اولے پڑنا، درجہ حرارت کا بڑھنا، تیز دھوپ اور ان جیسی دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں نے کشمیر میں کاشت کی جانے والی فصلوں کی پیداوار کو کافی حد تک کم کر دیا ہے جس سے اس شعبے سے منسلک کسان کافی پریشانی میں مبتلا ہیں۔
انہی فصلوں میں مکئی کی فصل بھی شامل ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہے۔ مکئی ایک خاص درجہ حرارت (°21 سے °27) پر جون سے اکتوبر کے مہینے میں کاشت ہوتی ہے۔ درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اس کی پیداوار پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ 50 سے 100 سینٹی میٹر سالانہ بارشوں والے علاقوں میں کاشت ہوتی ہے مگر ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ویدر پیٹرن تبدیل ہونے اور وقت پر بارشوں کے بھی نہ ہونے نے اس فصل کی پیداوار کم کر دی ہے۔
کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے نواحی علاقے کومی کوٹ سے تعلق رکھنے والے 72 سالہ محمد صدیق گذشتہ 5 دہائیوں سے کاشت کاری یعنی زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں مگر گذشتہ چند سالوں میں حاصل ہونے والی مکئی کی پیداوار سے وہ مطمئن نظر نہیں آ رہے۔
ان کا کہنا ہے؛ 'ایک زمانہ تھا جب میں اپنی زمین سے چالیس پچاس من سالانہ مکئی حاصل کرتا تھا مگر یہ اب کم ہو کر صرف 6،5 من رہ گئی ہے۔ ہم اپنی فصل پر محنت بھی پوری کرتے ہیں، کھاد کا استعمال بھی کرتے ہیں مگر سالہا سال پیداوار کم ہی ہوتی جا رہی ہے۔ جب ہل چلا کر ہم گندم کی کاشت کرتے ہیں تو کئی کئی ہفتوں تک بارش نہیں ہوتی۔ جب فصل پک کر تیار ہوتی ہے تو بے وقتی بارش فصل کو تباہ کر دیتی ہے'۔
محمد صدیق شاید ماحولیاتی تبدیلی کے نام سے واقف تو نہیں مگر وہ ان خدشات کا اظہار ضرور کررہے ہیں کہ آنے والے دن مزید سخت ہوں گے۔
'آج سے 10 سال قبل ہم اپنی زمینوں سے اچھا خاصا منافع کماتے تھے مگر اب حاصل ہونے والی فصل سے بیج کے پیسے بھی پورے نہیں ہوتے'۔
آزاد کشمیر کے بیش تر علاقوں میں کسان فصل کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے معاشی مسائل کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بیش تر افراد زمینداری کا پیشہ ترک کر کے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ملازمتیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
مظفرآباد ہی کے علاقے مجہوئی کے چالیس سالہ محسن نقوی پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں مگر بچپن سے ہی والدین کے ساتھ اپنی 30 کنال زمین پر مختلف فصلوں کی کاشت کرتے ہیں جن میں مکئی کی فصل بھی شامل ہے۔
محسن نقوی بتاتے ہیں کہ جب وہ والدین کے ساتھ آج سے 20 سال قبل مکئی کی کاشت کرتے تھے تو ان کی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار 60 من سے بھی زائد ہوتی تھی مگر اب موسمی تغیر اور تبدیلیوں سے یہ بہت ہی کم رہ گئی ہے۔
'ہمارے والدین کئی مزدوروں کی مدد سے فصل کی کٹائی کرتے تھے جس میں ہفتوں لگ جاتے تھے مگر اب یہ اتنی کم ہو گئی ہے کہ انہیں مزدوروں کی ضرورت تک نہیں پڑتی'۔
محسن نقوی بتاتے ہیں کہ 'ان کے جاننے والے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا کئی دہائیوں سے اپنی زمینوں سے ہی روزگار وابستہ تھا مگر کچھ سالوں سے وہ اس پیشے کو چھوڑ رہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں جس سے ان کی زمینیں بھی بنجر ہو رہی ہیں'۔
محسن نقوی کی والدہ عزیز فاطمہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ مل کر اپنی زمینوں پر مکئی کاشت کرتی تھیں۔ فصل تیار ہونے کے بعد علاقے کے غریب غربا بھی لے جاتے تھے، مال مویشی بھی مکئی کھاتے تھے جس کے بعد بھی انہیں منافع بخش پیداوار حاصل ہوتی تھی۔
عزیز فاطمہ کے مطابق 'اس بار ہم نے مکئی کے بیج بوئے تو تین ماہ تک بارشیں بھی نہ ہوئیں اور پچھلے ہفتے فصل کی کٹائی شروع تھی کہ تیز بارش شروع ہو گئی جو تین روز تک جاری رہی جس سے فصل کو کافی نقصان پہنچا'۔
آزاد کشمیر کے محکمہ زراعت کے زیر اہتمام کی جانے والی ریسرچ اور حاصل ہونے والے اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ گذشتہ سالوں میں موسمیاتی تبدیلی سے مکئی کی فصل کی پیداوار کم ہوئی ہے اور اگر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو 2030 تک مکئی کی پیداوار 10 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
محکمہ زراعت آزاد کشمیر کے کراپ سیکشن (crop section) سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 میں 247352 ایکڑ رقبے پر کاشت ہونے والی مکئی کی فصل کی حاصل ہونے والی پیداوار 184183 ٹن تھی جبکہ سال 2022 میں 234118 ایکڑ رقبے پر مکئی کاشت کر کے حاصل ہونے والی پیداوار 159282 ٹن رہی۔ یوں 2018 میں ایک ایکڑ زمین پر ہونے والی 745 کلوگرام مکئی کی پیداوار 2022 میں کم ہو کر 680 کلوگرام فی ایکڑ تک آ گئی اور اس سال اس میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں 2018 میں 58980 ایکڑ رقبے پر حاصل ہونے والی پیداوار 43860 ٹن تھی جو 2022 میں کم ہو کر 37931 ٹن تک آ گئی۔ یوں یہ پیداوار 727 کلوگرام فی ایکڑ سے کم ہو کر 650 کلوگرام فی ایکڑ رہ گئی ہے۔
آزاد کشمیر کے سیکرٹری زراعت جاوید ایوب اس حوالے سے کہتے ہیں کہ 'آزاد کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلیوں نے شعبہ زراعت کو متاثر کیا ہے اور ان کا محکمہ اس حوالے سے کسانوں کی تربیت اور انہیں معیاری بیج کی فراہمی کے لئے اقدامات کر رہا ہے'۔
'محکمہ زراعت آزاد کشمیر کی ٹیمیں ہر پیر کو گاؤں گاؤں جا کر کسانوں کے ساتھ سیشن منعقد کرتی ہیں اور انہیں ماحولیاتی تبدیلی سمیت فصل کی پیداوار کو بہتر بنانے کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتی ہیں'۔
جاوید ایوب ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ 'ماحولاتی تبدیلیوں سے آزاد کشمیر میں ویدر پیٹرن تبدیل ہوا ہے، کئی دفعہ مسلسل بارشیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کئی کئی مہینوں تک خشک سالی کی صورت حال رہتی ہے۔ آزاد کشمیر میں اوسطاً درجہ حرارت 2 سے ڈھائی فیصد بڑھا ہے۔ ان سب اثرات سے ہمارے بیالوجیکل کیلنڈر بھی متاثر ہوئے ہیں جن پر ہم فصلوں کی تیاری کرتے تھے'۔
محکمہ زراعت کے اقدامات کے حوالے سے وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'ان بدلتے ہوئے حالات میں محکمہ زراعت نے زرعی ماہرین کی مدد سے نئے زرعی کیلنڈر ترتیب دیے ہیں اور اس حوالے سے وہ کسانوں کو بھی تربیت دے رہے ہیں کہ وہ وقت پر ربیع اور خریف کی فصلوں کی تیاری کر سکیں'۔
محکمہ زراعت کے ماہرین کے مطابق 2023 میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے مکئی کی فصل کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ ان دنوں آزاد کشمیر کے بیش تر اضلاع میں مکئی کی کٹائی شروع ہے جس کے بعد پیداوار کے اعداد و شمار سامنے آئیں گے مگر ایک اندازے کے مطابق رواں سال مکئی کی پیداوار میں 3 سے 5 فیصد کمی کا امکان ہے۔
محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر ریسرچ ظفر جہانگیر کہتے ہیں کہ 'کلائمیٹ چینچ ایک گلوبل ایشو ہے، اس سے ہمالیائی خطہ بہت متاثر ہوا ہے۔ مکئی ایک ذی حس (sensitive) فصل ہے اور درجہ حرارت کا بڑھنا اسے بری طرح متاثر کرتا ہے۔ حالیہ سالوں میں درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اس کی پیداوار پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں'۔
ظفر جہانگیر بتاتے ہیں کہ 'ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہم مختلف ایکولوجیکل زونز میں ٹرائل کر رہے ہیں جس کا ڈیٹا آنے کے بعد کسانوں کو یہ معلومات فراہم کر سکیں گے کہ وہ کس وقت میں کون سی فصلیں کاشت کریں تا کہ ان کی پیداوار متاثر نہ ہو'۔
**
This story is produced with the help of OCRI (Open Climate Reporting Initiative), collaborating with CIJ (Centre for Investigative Journalism), under the mentorship of Farahnaz Zahidi