جمہوریت بچاؤ تحریک اور بلوچستان کا سوال

جمہوریت بچاؤ تحریک اور بلوچستان کا سوال
اپوزیشن جماعتیں اس وقت متحد ہوکر جمہوریت بچاؤ تحریک کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہو، ووٹ کو عزت حاصل ہو، عوام کی طاقت، آئین کی بالا دستی اور اظہار رائے کی آزادی قائم ہو۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں مندرجہ بالا مطالبات سیاسی، آئینی اور عین جمہوری ہیں اس لیئے کوئی بھی سوچ سمجھ رکھنے والا شہری ان کی مخالفت نہیں کر سکتا مگر یہاں سوال اپوزین جماعتوں کی اتحاد اور نومولود تحریک جسے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کا نام دیا گیا ہے، کی احتجاجوں کے آغاز سے ہے جو بلوچستان سے گیارہ اکتوبر کو شروع ہوگا۔

کسی بھی عوامی تحریک کا آغاز عوام کے اندر سے کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو یہ احساس ہو کہ یہ ہماری تحریک ہے، اسے میڈیا کوریج دیتی ہے اور جمہوریت میں چوتھا ستون ہونے کا فرض نبھاتا ہے۔ لیکن بلوچستان تو وہ بدقسمت سرزمین ہے جو اب تک قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں دریافت ہی نہیں ہوئی ہے۔ ملکی میڈیا کے سب سے بڑے چینلز کو ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ کوہلو اور گوادر میں کتنا فاصلہ ہے؟ ابھی تک اے آر وائے جیسے بڑے ادارے کو یہ نہیں معلوم کہ تربت بلوچستان کے دوسرے بڑے ضلع کیچ کا ہیڈکوارٹر ہے یا کوئٹہ کا کوئی بازار؟


احتساب اور انتقام کا جب آغاز ہوا تو اس وقت بھی اپوزیشن کی ایک اہم جماعت مسلم لیگ ن کی رہنماء محترمہ مریم نواز بلوچستان میں آئیں جہاں انھوں نے بلوچی کشیدہ کاری والے کپڑے پہن کر بلوچ ثقافت سے قربت ظاہر کرنے کی کوشش تو کی مگر اسٹیج پر آتے ہی عوام کی مجمعہ سے سوال کیا کہ " بلوچستان والوں کیا تمھیں اردو سمجھ آتی ہے؟" اگر فرض کریں کہ مجمعہ جواب دیتا کہ نہیں، تو کیا محترمہ بلوچی، برائیوی یا پشتو میں تقریر کرتی؟ مجمعہ میں ممکن ہے کہ پچاس فیصد سے زائد لوگ پنجابی سمجھ سکتے لیکن محترمہ کےلیئے مشکل ہوتا۔


بلوچستان تو وہ خطہ ہے جہاں روزانہ احتجاج ہوتے ہیں، لاپتہ لوگوں کی بازیابی کے لیئے ڈاکٹر دین محمد کی بیٹیاں پچھلے گیارہ سالوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ہزاروں لاپتہ افراد کی بازیابی  کے لئے کئی بچوں، خواتین اور بزرگوں کے ساتھ بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہیں۔ کیا فرق پڑا ان احتجاجوں سے؟ یہاں تو ایک میڈیکل کالج کے لیئے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھنا پڑتا ہے، کیا اتنی طاقت ہے اپوزیشن اتحاد میں؟

یہ اپوزیشن اتحاد بلوچستان میں داخلہ کی سرٹیفکٹ کہاں سے لینگے؟ کیونکہ یہاں تو پچھلے دنوں قومی اسمبلی کے منتخب نمائندہ محسن داوڑ کو ائیرپورٹ سے ہی واپس بیھج دیا گیا۔۔۔


ہاں اگر اپوزیشن جماعتیں خصوصی کلئیرنس لے کر آرہی ہیں اور واقعی میں ایک بڑی طاقت ان کے سروں پر سائیہ ہے تو بچارے خستہ حال، کمزور اور پہلے سے ہی کئی احتجاجوں کی چنگل میں پھنسا بلوچستان حکومت کو کیوں مشکل میں ڈالنا چاہتے ہو؟ اگر کرنا ہے تو پشاور، لاہور، کراچی یا ملتان سے ہی کر لیں جہاں امن و امان بھی بہتر ہے، میڈیا کی رسد بھی اچھی ہے اور اپوزیش کی بڑی جماعتوں کا اثرو رسوخ بھی اچھا خاصہ ہے۔ ملتان سے احتجاج شروع کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہاں پچھلے 38 دنوں سے زائد بلوچ طلباء کا احتجاجی کیمپ بھی میڈیا اور اعلی حکام کو نظر آئے گا جو بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کے لیئے مخصوص نشستوں اور اسکالرشپس کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہ بچے بھی آپ اپوزیشن کو دعائیں دینگے اور یہ بھی فائدہ ہوگا کہ بلوچستان کے عوام کی ہمدردی بھی حاصل ہوگی۔


یہاں بلوچستان کی پسماندگی میں احتجاج کا آغاز کرکے نا تو کوئی صحافتی ادارے کی آنکھ تک پہنچ پاو گے اور نا ہی کثیر تعداد میں عوام ہوگی۔ اوپر سے ابھی سردیوں کا آغاز بھی ہوا جاتا ہے جہاں سخت و تیز کندھاری ہوائیں جنھیں مقامی لوگ گوریچ کہتے ہیں نازک مزاج اپوزیشن رہنماؤں کے لیئے اذیت ناک ہوگی  اور ملتان کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نا ہی وہاں کراچی ملیر کی بحریہ ٹاؤن والوں کا کوئی لپڑا کچھی آبادیوں کے گرانے کا چل رہا ہے جو میڈیا کے لیئے کوئی سخت امتحان ہو کہ کسی اپوزیشن رہنماہ کی تقریر میں سے کچھ الفاظ نکل نہ جائیں اور بعد میں اشتہارات بند ہوں۔


بلوچستان میں چونکہ مشکلات زیادہ ہیں اور مسلسل احتجاجوں میں پرورش پانے والی یہاں کی عوام اب مزاحمت پسند بن چکے ہیں اس لیئے کوئی بھروسہ نہیں کہ سریاب کی لوکل میں دھکے کھاکر کوئی مظاہرین دوران تقریر یہ سوال نہ کر ڈالے کہ جب ہمارے لوگ کوئٹہ سے پیدل کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کر رہے تھے تو آپ ہی لوگوں کی حکومت تھی آپ لوگ کہاں تھے؟

کوئی مجمعہ میں سے یہ سوال نہ کر ڈالے کہ جب چمن بارڈر پر تاجر و مزدور جب احتجاج کر رہےتھے اور ان پر اندھا دھن فائرنگ کرکے شہید و زخمی کردیا گیا، اس وقت آپ کہاں تھے؟

کوئی باپ جس کا بیٹا ملتان یا پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے احتجاج پر بیٹھا ہو، وہ یہ سوال نہ کرے تم میں سے کتنے لوگ اب تک وہاں گئے ہو؟

ہزارہ ٹاؤن سے آیا ہوا کوئی یتیم بچہ یہ سوال نہ کرے کہ جب ایک دھماکے میں ہمارے دوسو لوگ ایک ساتھ مرتے تھے تب آپ لوگ کہاں تھے؟

اگر تربت سے آیا ہوا معصوم برمش یہ سوال کرے کہ جب میری ماں کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا، آپ لوگ کہاں تھے؟

یہ ماحول دیکھ کر پورا مجمعہ سوالات کی بوچھاڑ کردے اور پچھلے ہر گزرے لمحے دہائیوں کا حساب مانگیں تو کیا کروگے؟ کیا سب مجرم نہیں ہو؟ سب شریک جرم نہیں ہو؟ یا خاموش تماشائی نہیں ہو؟


کیونکہ آپ کی جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی، سیاسی ماحول اور آئین و قانون تو شاید اب متاثر ہوں مگر بلوچستان کے لیئے یہ سب نیا نہیں ہے۔ اس لیئے بہترین اپوزیشن کا بہتر آپشن ملتان ہوگا جہاں ایک تیر سے کئی شکار بھی ہوسکتے ہیں اور یہاں سے ہمدردی بھی وصول کی جاسکتی ہے۔ اور ویسے بھی بلوچستان کا کیا ہے؟ یہاں کی خبر باقی ملک تک نہیں پہنچتی لیکن باقی ملک کے کونے کونے کی خبر یہاں پہنچ جاتی ہے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔