زمینی حقائق سے واضح ہوتے سیاسی خدوخال جمہوری نہیں دکھائی دیتے

'ووٹ کو عزت دو' کا نظریہ بھی بدلا بدلا لگ رہا ہے بلکہ اس کی جگہ اب 'طاقت کو عزت دو' کا عملی ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا مبینہ سول مارشل لاء کا تاثر ختم کرنے کے لئے لاء کو مارشل کیا جا رہا ہے تا کہ قانون پرعمل درآمد کے لئے عسکری طاقت میسر ہو۔

زمینی حقائق سے واضح ہوتے سیاسی خدوخال جمہوری نہیں دکھائی دیتے

زمینی حقائق کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید جمہوری اقدار ہمیں موافق آتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس کی ایک وجہ تو قومی سطح پر سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کا فقدان بھی ہے جو ایک جمہوری نظام کے اندر کامیابی کے لئے لازم ہوتے ہیں لیکن جو ہماری پارلیمان قانونی اصلاحات کر رہی ہے ان سے ابھرتے ہوئے تاثر سے لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود بھی یا تو جمہوریت سے نا امید ہوچکی ہیں یا پھر فی الحال ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ موجودہ ملکی معاشی حالات میں ریاست پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری سیاسی عدم استحکام کی سوچ اور سرگرمیوں میں مزید کسی چھوٹ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اس کی سب سے بڑی وجہ خود سیاسی جماعتیں ہی ہیں جن کو اس دوران کافی موقع دیا گیا کہ وہ اصولی سیاست کی طرف لوٹ آئیں، جن میں تحریک ا انصاف کا رویہ تو انتہائی قابل تشویش رہا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنے آپ کو سیاست سے الگ رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے مگر سیاسی حلقوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے مزاج اس طرح کی آزاد، حساس اور با اختیار سیاست کے عادی نہیں ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پچھلی سات دہائیوں سے رائج روایتی سیاست کے عادی ہو چکے ہیں، جس میں جمہوریت کی روح رواں طاقت اسٹیبلشمنٹ رہی ہے جس کا انہوں نے خود بھی کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ ہر فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق ہوتا رہا ہے جس کے پیش نظر اب ہمارے سیاست دان بھی ان سہولت کاریوں کے عادی ہو چکے ہیں۔

اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی ہے تو اس خلا کو پر کرنے کے لئے دوسرے اداروں نے وہی کردار اپنا لیا ہے اور ایسے حالات بنائے جا رہے ہیں جن سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ وہ سیاست کو آزاد نہ چھوڑیں وگرنہ سیاست کا سنبھلنا ممکن نہیں رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر سیاست کو جمہوری اور اصولی رکھنے کی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری سیاسی جماعتیں یقیناً اسٹیبلشمنٹ کے اپنے آپ کو سیاست سے دور رہنے کے دعوے پر یقین رکھتے ہوئے اپنے عمل سے یہ ثابت کرتیں کہ وہ ان کے اس فیصلے سے خوش ہیں اور آپس میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اصولی سیاست و جمہوریت اور اس کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی مستقبل بارے لائحہ عمل دیتیں۔ اور اگر پھر بھی کوئی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا اشارہ ملتا تو ان کو جوابدہ بھی ٹھہراتیں۔ مگر وہ نہ تو آپس میں مذاکرات کر سکیں اور نہ ہی پر امن سیاسی اور جمہوری ماحول بنا سکیں۔ جس کو اقتدار مل جاتا ہے وہ دوسروں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں اور جن سے اقتدار چلا جاتا ہے ان کی سیاست کا محور ملکی فلاح کی بجائے اقتدار کا حصول ہو جاتا ہے اور سیاست کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

 سپریم کورٹ نے زبردستی تحریک انصاف کو حکومت کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کے لئے مذاکرات پر بٹھایا مگر اس سے کوئی نتیجہ اخذ نہ ہو سکا۔ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے تحریک انصاف کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہئیے تھی لیکن تحریک انصاف کے کچھ قائدین کی طرف سے اب یہ بیانات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ عمران خان نے جان بوجھ کر یہ موقع ضائع کر دیا اور پھر 9 مئی کے واقعہ کے دوران ان کے کارکنان کی سرگرمیوں نے تو ان کی ساری کی ساری سیاست کا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا ہے کہ جیسے وہ اس گھمنڈ میں تھے کہ اپنی مقبولیت کے زور پر سب کچھ زبردستی منوا لیں گے اور وہ کسی بھی صورت اقتدار کے حصول سے کم کسی بھی حالت میں امن کے حق میں نہیں تھے جس کی ایک دلیل ان کی وہ ساری سیاسی سرگرمیاں ہیں جن کو وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہو جانے کے بعد سے جاری رکھے ہوئے تھے جس میں ان کی مکمل سیاست چوک چوراہوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی جس میں انہوں نے کئی بیانیے بنائے جن میں ایک سائفر کا بھی تھا جس پر اب ان کے اپنے لوگ ہی سیاسی کھیل کا انکشاف کر رہے ہیں اور عمران خان نے خود کئی یو ٹرن بھی لئے ہیں جس کا آج وہ نقصان بھی اٹھا رہے ہیں۔

ان کو چاہئیے تھا کہ وہ اگلے انتخابات کا مطالبہ ضرور کرتے مگر سنجیدہ اپوزیشن کر کے حکومت کی اصلاح اور عوام کی نمائندگی کا حق بھی ادا کر رہے ہوتے جس میں وہ مکمل طور پر ناکام رہے اور ان کی سرگرمیوں کی بدولت جس میں وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش اور بلا حدود و قیود تنقید کی وجہ سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کا اعتماد کھو بیٹھے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب بھی اپنا اعتماد ضائع کر بیٹھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار پر تو اعتراض کیا جا سکتا ہے جس کاعمران خان سمیت سب حصہ رہے ہیں مگر ان کے ایک ریاستی ادارے کے کردار اور ذمہ داریوں کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس پر بے جا تنقید کرنی چاہئیے۔

عمران خان وزیر اعظم کے اعلیٰ منصب پر رہ چکے ہیں اس لئے ان کی سوچ اور عمل میں پختگی ہونی چاہئیے۔ جب وہ خود اقتدار میں تھے تو وہ فوج کی حکومتی امداد کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور فوج پر تنقید کو ملک دشمنی سے تشبیہ دیتے تھے۔ ویسے بھی ریاست کے کسی ادارے کے سربراہ کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ملنے کی خواہش یا سیاست میں کردار کا مطالبہ نہ تو آئینی طور پر جائز ہے اور نہ ہی جمہوری اور اخلاقی اقدار اس کی اجازت دیتے ہیں بلکہ وہ خود عسکری ادارے کے سربراہ کی اپوزیشن سے ملاقاتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

اب لگتا یوں ہے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال اور خاص کر 9 مئی کے بعد کے سیاسی حالات کے پیش نظر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ جب تک ملک کی معیشت سنبھل نہیں جاتی اور پاکستان ترقی کے سفر پر مستقل گامزن نہیں ہو جاتا یا کوئی پائیدار حل نہیں مل جاتا غیر سنجیدہ اور غیر جمہوری سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اس سے ابھرنے والا تاثر پھر سے ایک ہائبرڈ جمہوریت کے خدوخال پیش کر رہا ہے جس کا وزیر اعظم شہباز شریف سے صحافیوں کی طرف سے سوال بھی کیا گیا جس پر انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ اگر ایسا تاثر ابھرتا بھی ہے تو وہ یہ سب کچھ ملک کی بہتری کے لئے کر رہے ہیں۔ پھر حکومت میں موجود سیاسی جماعتوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کے لئے سخت فیصلے کئے ہیں جن سے وجود پانے والی مہنگائی اور عوام کو درپیش مشکلات نے ان کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے اور ان کے ساتھ رکھے گئے غیر مساویانہ رویوں اور تحریک انصاف کو مہیا کی گئی سہولت کاریوں سے وجود پانے والی صورت حال کے ذمہ داران کو ہی اپنے کئے کو سنبھالنا ہو گا۔

سیاسی جماعتیں 2018 کے انتخابات کے حقیقی نتائج کے تناسب والے مینڈیٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اگر انہوں نے سخت فیصلے کر کے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگایا ہے تو اس کی وجہ 2018 کے انتخابات کی دھاندلی تھی جس کا وہ صلہ ڈیمانڈ کر رہے ہیں جس کا حل وہ قوانین میں ترامیم کے ذریعے سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس سے مستقبل میں جمہوری حلقوں کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عہدے اور سوچیں بدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں اور پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی ایسی قانونی ترامیم کی جا رہی ہیں جو بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہیں جن کی موجودہ حکومت کو قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

'ووٹ کو عزت دو' کا نظریہ بھی بدلا بدلا لگ رہا ہے بلکہ اس کی جگہ اب 'طاقت کو عزت دو' کا عملی ماحول بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا مبینہ سول مارشل لاء کا تاثر ختم کرنے کے لئے لاء کو مارشل کیا جا رہا ہے تا کہ قانون پرعمل درآمد کے لئے عسکری طاقت میسر ہو کیونکہ جب عدالتوں تک 'قانون کی طاقت' کی بجائے 'طاقت کے قانون' کی آشیر باد کو باعث شرف سمجھا جاتا ہے تو پھر قانون کو بھی اسی طاقت سے ہم آہنگ کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ اس پر مریم نواز اپنی خاموشی سے شاید حکومت کے موجودہ انسانی حقوق اور آزادی صحافت سے متصادم قانونی اصلاحات کے گناہوں سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنے کا جواز پیدا کر رہی ہو مگر ان کی آج کی خاموشی سے کل لا تعلقی کا دعویٰ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اسی طرح حکومت میں موجود سیاست دانوں کو بھی اگر کل انہی قوانین کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر یہ مکافات عمل ہی ہو گا۔

مانا کہ اب پاکستان کے پاس زیادہ وقت نہیں کہ وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ اور اعتماد کو بحال کرنے اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کے حاصل شدہ موقعوں کو ضائع کرے جس کے لئے ضروری ہے کہ جس نے بھی سیاست کرنی ہے وہ آئینی، اصولی اور جمہوری اقدار کی حدود کے اندر رہ کر ملکی مجبوریوں کے پیش نظر اپنی سرگرمیوں کو حالات کی مطابقت میں رکھے۔ یہاں تک کی سوچ تو جائز ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت ریاست کے لئے معیشت جمہوریت سے بھی زیادہ اہم ہے مگر اس کی بہتری کا راستہ بھی جمہوریت کی پگڈنڈیوں سے ہی گزرتا ہوا تلاش کرنا ہوگا۔ جمہوریت کو ریگولرائز کرنے کی سوچ تو قابل برداشت ہو سکتی ہے مگر اس کو پابند سلاسل کرنے کی سوچ مزید سیاسی گھٹن پیدا کرے گی۔

اگر ہم پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو پھر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا اور اس کے لئے طاقت کے ایوانوں کو با اختیار بنانے کی بجائے پارلیمان اور الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار بنانا ہوگا اور اس کی سربراہی کسی عوامی بالادستی پر یقین رکھنے والی سیاسی شخصیت کے حوالے کرنا ہو گی اور اس طرح طاقت کے ایوانوں کو بھی محفوظ سوچ کے تحت رکھنے کے لئے وہاں بھی اصلاحات لانا ہوں گی جن سے ریاست کے اداروں کی طاقت کو آئین کے تحت لا کر اسے پارلیمان کے دست و بازو بنانا ہوگا۔ اختیارات اور ذمہ داریوں کی شراکت اورجوابدہی کا کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ جمہوریت کو اپنے قومی اقدار سے ہم آہنگ تو بنایا جا سکتا ہے مگر اس کو انسانی حقوق کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی سے جدا کر کے فائدے حاصل نہیں کیے جا سکتے۔