جے پور میں اردو پرنٹنگ پریس کی تاریخ

جے پور میں اردو پرنٹنگ پریس کی تاریخ
جے پور نے 19 ویں صدی کی چھٹی دہائی میں ادب کا عروج دیکھا جس میں اشرافیہ ادیبوں، شاعروں اور عالموں کے ساتھ مل کر ادب، شاعری اور صحافت کو فروغ دینے کیلئے کوشاں تھی۔ مہاراجہ سوا رام سنگھ کی مہربانی کی بدولت اپنی نوعیت کی پہلی ادبی سوسائٹی کا قیام 26 مارچ 1869 کو عمل میں آیا۔ اس سوسائٹی کی افتتاحی تقریب میں گورنر کے نمائندے، سیاسی ایجنٹوں اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ اس افتتاحی کانفرنس کی کارروائی کے دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر پندرہ دن بعد اس ادبی سوسائٹی کی ایک میٹنگ منعقد ہوا کرے گی اور ایک اخبار اور پرنٹنگ پریس کا قیام عمل میں لایا جائیگا۔

ادبی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ضروریات اس امر کی متقاضی تھیں کہ ایک پرنٹنگ پریس کا جلد سے جلد افتتاح کیا جائے اور اسے عرصہ دراز تک چلاتے ہوئے اس کے معیار پر نظر رکھی جائے۔ حکیم سلیم خان خستہ (جو راجستھان سے شائع ہونے والے پہلے ہفت روزہ نیر راجستھان کے مدیر تھے) نے جے پور میں خاور راجستھان کے نام سے 1869 میں پہلا پرنٹنگ پریس قائم کیا جس کا نام بعد ازاں تبدیل کر کے سوسائٹی پریس رکھ دیا گیا۔ اس پریس نے 1924 ہجری (1877AD) تک کام کیا اور محمد علی بیگ ماہوی نے اس کے آخری منیجر کے طور پر ذمہ داریاں انجام دیں۔ محمد علی بیگ ماہوی مولانا امام بخش سہبائی کے شاگرد تھے اور فارسی اور اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب سے شاباش وصول کر چکے تھے۔



اگلے پرنٹنگ پریس کا قیام 1305 ہجری (1887AD) میں ہیرا لال بھارگو مونس (1853-1921) کی جانب سے عمل میں لایا گیا اور اسے مطبع سراج الفیض کا نام دیا گیا۔ اس پرنٹنگ پریس نے 1932 تک کام کیا اور اس عرصے کے دوران ہیرا لال، ان کے بھائی (پنا لال ناظم) اور دیگر مصنفین کی کتب چھاپنے کا مؤجب بنا۔ اس کے بعد کشن پول بازار میں بال چندر پریس کا قیام عمل میں آیا جس نے زیادہ تر لتھو گرافی (پتھر اور تختی کی طباعت) کے کام کو ترجیح دی۔ اس کے ساتھ ہی جے پور سینڑل جیل میں جیل پریس کا افتتاح کیا گیا جس نے ابتدا میں محمد شریف اور عبدالقادر جیسے غیر معمولی کاتبوں کو منسلک کیا لیکن بعد میں اس کا معیار بتدریج زوال کا شکار ہو گیا۔ اس پرنٹنگ پریس کو بعد ازاں گورنمنٹ پریس کا نام دے دیا گیا۔ 1333 ہجری (1914AD) میں مولوی اساس الدین احمد تسنیم نے مطبع مولوی اساس الدین واقع شہر جے پور کے نام سے ایک پرنٹنگ پریس کا آغاز کیا جو جلد ہی قومی پریس کے نام سے نمایاں ہو گیا کیونکہ یہاں سے ماہانہ ’قومی‘ کا اجرا کیا گیا جو مولوی تسنیم کی زیر ادارت 1901 سے لیکر 1919 تک شائع ہوتا رہا۔ یہ پرنٹنگ پریس مولوی تسنیم کی وفات تک فعال رہا جو 29 محرم 1343 ہجری (29 اگست 1924) کو وفات پا گئے۔ حکیم شمس الدین نے کاروباری بنیادوں پر ایک پرنٹنگ پریس شروع کیا جس نے متعدد نصابی اور ادبی کتابیں چھاپیں۔ بیگم پریس کے نام سے ایک اور پرنٹگ پریس کاآغاز کیا گیا لیکن یہ کچھ قابل تحسین مواد چھاپنے سے پہلے ہی غیر فعال ہو گیا۔ منشی عبدالرحیم جو کہ بذات خود ایک خطاط تھے انہوں نے رحیمی پریس کا قیام عمل میں لایا لیکن جلد ہی یہ معیاری مواد کی کمی اور وسائل کی عدم موجودگی کے باعث بند ہو گیا۔ محمد حنیف نے مشرق پریس کے نام سے پرنٹنگ پریس شروع کیا جو کہ چھپائی کے مواد کی کمی اور اس کے مواقع ڈھونڈنے میں سست روی کے باعث بند ہو گیا۔ 1948 میں بابو ٹکام داس سندھی نے شیام لتھو پریس قائم کیا جس نے صرف لتھوگرافی پر مبنی چھپائی کو اختیار کیا لیکن اس کے پاس چھپائی کی مہارت کے ہنر کا فقدان تھا۔



پرنٹنگ پریس کی صنعت کو برصغیر کی تقسیم کے باعث شدید نقصان برداشت کرنا پڑا کیونکہ مسلمان امرا بشمول شعرا اور صحافیوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کر لی۔

یہ انتہائی قابل فکر امر ہے کہ اس ضمن میں اس مضمون سے متعلق بہت سا دستاویزی مواد موجود ہے لیکن فارسی اور اردو رسالوں کی حد تک۔ جو کہ عام عوام کی دسترس اور فہم سے بالاتر ہیں۔ اس موضوع پر ایک جامع تحقیق یقیناً نئی وسعتوں کا باب کھول سکتی ہے اور اب تک نظروں سے اوجھل کافی مواد اور حقائق منظر عام پر لانے کا باعث بن سکتی ہے۔