Get Alerts

سب سے بڑی قربانی پیپلز پارٹی ہی کو دینا ہوگی

سب سے بڑی قربانی پیپلز پارٹی ہی کو دینا ہوگی
 

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی PDM کے استعفوں کا معاملہ بدستور لٹکا ہوا ہے۔ اس حوالے سے جہاں مسلم لیگ نواز اور مولانا فضل الرحمٰن بالکل ایک واضح پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہیں، تاحال پیپلز پارٹی کی جانب سے کوئی حتمی بات سامنے نہیں آ رہی تھی۔ پہلے کہا گیا کہ فیصلے ہونا ابھی باقی ہے، پھر خبر آئی کہ استعفے نہیں دیے جائیں گے، اور اب خبریں آ رہی ہیں کہ استعفے دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، یہاں تک کہ بلاول ہاؤس کراچی سے سندھ کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی کو پیغام بھی بھجوا دیا گیا ہے کہ اپنے اپنے استعفے سوموار یعنی 14 دسمبر تک بلاول ہاؤس پہنچا دیں، یہ استعفے ہاتھ سے لکھے گئے ہوں اور بہادر کیریو کے پاس جمع ہونے چاہئیں۔ ان استعفوں میں سندھ اسمبلی کی سپیکر کو مخاطب کیا جانا ضروری ہے۔

یہ خبر یوں تو صبح سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے لیکن ذرائع نے نیا دور کو تصدیق کی ہے کہ یہ پیغام بلاول ہاؤس سے ہی بھیجا گیا ہے۔ جہاں پی ڈی ایم اور اس کے حامی پیپلز پارٹی کے اس پیغام کو ایک بڑی فتح قرار دے رہے ہیں، بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ حتمی نہیں ہے۔ استعفے لے کر پارٹی قیادت کے پاس فی الحال جمع کروائے جا رہے ہیں اور اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ یہ سپیکر کو بھی جمع کروا دیے جائیں گے۔ اس حوالے سے آخری فیصلہ 26 دسمبر کو سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا اور اس وقت تک انتظار کیا جائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے من پسند پیشکش ملتی ہے یا نہیں۔ اگر مل گئی تو اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی گنجائش بالکل موجود ہے۔ بلکہ ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہی اس نیت سے گیا ہے اور صحافیوں کو اس کے سکرین شاٹ بھی اسی لئے بھیجے گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنی بارگیننگ پوزیشن کو بہتر کیا جا سکے۔

البتہ اس اتحاد کے ٹوٹنے کا امکان کم ہی ہے کیونکہ اس وقت پی ڈی ایم کی بھاری اکثریت نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہے اور اس اتحاد کے ذریعے مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی کی پالیسی کو بھی ڈکٹیٹ کر رہی ہے اور حکومت کے مقابلے میں اپنا وزن بھی بڑھا رہی ہے۔ لہٰذا مسلم لیگ نواز کے حق میں نہیں کہ وہ یہ اتحاد توڑے۔ البتہ پیپلز پارٹی کے لئے بھی اس اتحاد کا ٹوٹنا کوئی خوش آئند چیز نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دورِ حکومت میں نواز شریف اور ملک کی دیگر سیاسی قیادت کے درمیان جو قدرے دوریاں پیدا ہوئی تھیں، وہ گذشتہ دو سال میں قربتوں میں بدل چکی ہیں۔ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان حکومت گرانے میں جو کردار ادا کیا اور زرداری صاحب کے علاوہ خود بلاول نے بھی اس کا کریڈٹ لیا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کو ملا کیا ہے؟ بلاول بھٹو کہتے تھے کہ کراچی سے ایم کیو ایم ختم ہو گئی، اب کراچی بھی پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ لیکن جب الیکشن کا رزلٹ آیا تو پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے تو لیاری کی سیٹ بھی گئی، الٹا 13 سیٹیں تحریک انصاف جیت گئی۔ لیاری، جس کے لئے کبھی ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ جس دن پیپلز پارٹی لیاری سے الیکشن ہار گئی، سمجھ لینا پیپلز پارٹی ختم ہو گئی، وہ پی ٹی آئی کے ایک عام کارکن نے اس کے جبڑوں سے چھین لی۔ اس شکست کی خاص بات یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے عبدالشکور شاد کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا کوئی عام کارکن یا رہنما نہیں، خود بلاول بھٹو زرداری کھڑے تھے۔

ان کی شکست اگر تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق شفاف انتخابات میں ہوئی تھی تو یہ پیپلز پارٹی کے لئے سبق ہونا چاہیے کہ شفاف الیکشن میں اگر لیاری ہاتھ سے نکل گیا تو اس کی سیاست گذشتہ چند سالوں میں کیا رہی ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت کو یہ دھچکا کیوں لگا ہے۔ دوسری جانب اگر پیپلز پارٹی کے دعوے کو درست تسلیم کر لیا جائے کہ ان کے خلاف دھاندلی کی گئی تو بھی اس کو سوچنا چاہیے کہ سینیٹ انتخابات والی خدمت کے باوجود اگر ان کے خلاف دھاندلی کی گئی اور وہ بھی محض اس نیت سے کہ سندھ کے شہری علاقوں سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیا جائے اور اسے صرف دیہی سندھ تک محدود ایک جماعت دکھایا جائے تو کیا کسی نئی ڈیل پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

بنڈل جزیرے پر ابھی سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ یہ کس کی ملکیت ہیں اور عمران خان صاحب اس کو پہلے ہی اپنی کامیابیوں میں گنوا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں سے کٹ گئی تو اس کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی اسے صوبائی خود مختاری پر پوری اپوزیشن کی حمایت حاصل ہے، یہ اتحاد ٹوٹا تو یہ حمایت بھی ختم ہوتی رہے گی اور یاد رہے کہ اٹھارھویں ترمیم کے سب سے بڑے بینیفشری صوبے ہیں۔ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جو وفاق میں حکومت نہ بھی بنا پائے، سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ یہی بات اس کے دشمنوں کو کھٹکتی ہے۔ اپوزیشن بکھر گئی تو اٹھارھویں ترمیم کی حفاظت بھی پیپلز پارٹی اکیلے نہیں کر سکتی۔ نیب کیسز صحیح ہوں یا غلط، یہ طے ہے کہ اپوزیشن کو پکڑنے کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اتحاد کے بکھرنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کی یہ ڈھال بھی دوسری جماعتوں کی طرح ٹوٹ جائے گی۔

غرضیکہ پیپلز پارٹی کو اب پاکستان ڈیموکریٹک کے ساتھ ہی چلنا ہوگا۔ یہ اتحاد پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت کی قربانی مانگ رہا ہے۔ اس اتحاد میں کسی کے پاس پیپلز پارٹی سے بڑی قربانی دینے کے لئے نہیں۔ اور فوری طور پر تو اس سے حاصل بھی زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت ہی دوبارہ ہو جائے گی۔ لیکن بلاول ابھی نوجوان ہیں۔ وہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں تو پھر انہیں لمبی اننگز کا سوچنا ہوگا۔ سندھ سے باہر خود کو پھیلائیں گے تو ہی کل کو وزیر اعظم بن سکیں گے۔ اور اس مقصد کے لئے ان کو وقتی مفاد کو تیاگنا ہی ہوگا۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.