کیا عام نزلہ زکام کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

کیا عام نزلہ زکام کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟
عام نزلہ زکام کرونا وائرس سے بچانے کے ساتھ اس سے تحفظ بھی فراہم کر سکتا ہے، برطانوی تحقیق کاروں کا انکشاف۔

برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے تحقیق کاروں نے عام نزلہ زکام اور کورونا سے جڑی علامات پر تحقیق کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عام نزلہ زکام کے بعد جسم میں مخصوص مدافعتی خلیات بنتے ہیں جو مستقبل میں بیماری کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عام نزلہ زکام سے بننے والے یہی خلیات کورونا وائرس میں مبتلا ہونے سے بھی بچا سکتے ہیں۔

یہ تحقیق امپرئیل کالج آف لندن میں کی گئی جس میں جسم کے مدافعتی نظام کے ایک اہم ترین حصے ٹی سیلز (مدافعتی خلیات) پر توجہ دی گئی تو معلوم ہوا کہ ایک بار جب نزلہ زکام ختم ہوجاتا ہے تو کچھ ٹی سیلز جسم میں ایک میموری بینک کے طور پر موجود رہتے ہیں اور وائرس کے اگلے حملے سے نمنٹے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس 28 روزہ تحقیق میں برطانوی محققین نے 52 افراد کو شامل کیا تھا جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی اور وہ کورونا متاثرین کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے، اس تحقیق میں شامل صرف پچاس فیصد افراد کورونا کا شکار ہوئے جب کہ پچاس ایسے افراد محفوظ رہے جنہیں عام نزلہ زکام ہوا تھا۔

جو افراد کورونا سے متاثر ہونے سے محفوظ رہے ان پر تحقیق کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے جسم میں ٹی سیلز (مدافعتی خلیات) کی تعداد زیادہ تھی جس کہ وجہ سے وہ محفوظ رہے۔

تاہم محقیقین اور ماہرینِ صحت اس ہی بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے ویکسین لگوانا ہی اس سے محفوظ رہنے کا واحد زریعہ ہے۔ تحقیق کے 28 روزہ دورانیے کے دوران 50 فیصد افراد کووڈ سے متاثر ہوگئے جبکہ باقی کو کچھ نہیں ہوا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر نہ ہونے والے ایک تہائی افراد کے خون میں مخصوص میموری ٹی سیلز کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ یہ ٹی سیلز ممکنہ طور پر اس وقت بنے جب وہ اور ایک انسانی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جو عام نزلہ زکام کا باعث بنتا ہے۔

محققین نے تسلیم کیا کہ دیگر عناصر جیسے ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام اور گھر میں کووڈ کے مریض کا کم متعدی ہونا وغیرہ بھی نوول کورونا وائرس سے بچاؤ پر اثرانداز ہوئے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ ایک چھوٹی تحقیق تھی مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف کیسے لڑتا ہے اور اس سے مستقبل کی ویکسینز کے لیے مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈیٹا کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا امکان نہیں کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والا یا سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنے والے ہر فرد کو کبھی نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس کا سامنا نہیں ہوا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں نزلہ زکام کو کووڈ 19 سے تحفظ کا ذریعہ سمجھنا سنگین غلطی ہوگی کیونکہ نزلہ زکام کے 10 سے 15 فیصد کیسز کورونا وائرسز کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ محققین نے بھی ماہرین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینز ہی تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جسم کس طرح بیماریوں کے خلاف لڑتا ہے اس سے آگاہ ہونے سے نئی ویکسینز کی تیاری میں مدد ملے گی۔

موجودہ کووڈ ویکسینز میں کورونا وائرس کے باہر موجود اسپائیک پروٹین کو ہدف بنایا جاتا ہے مگر نئی اقسام میں یہ پروٹینز بدل رہے ہیں۔

محققین کے مطابق مگر جسم کے ٹی سیلز وائرس کے اندرونی پروٹینز پر حملہ آور ہوتے ہیں جو نئی اقسام میں بہت زیادہ نہیں بدلتے، جس کا مطلب ہے کہ ٹی سیلز کو زیادہ متحرک کرنے والی ویکسینز سے کووڈ کے خلاف دیرپا تحفظ مل سکے گا۔