وزیراعظم کنفیوز ہیں اور جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کر پا رہے، بلاول بھٹو

وزیراعظم کنفیوز ہیں اور جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کر پا رہے، بلاول بھٹو
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مرکزی حکومت کے کرونا وائرس کے خلاف اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم اس وبا کے دوران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔

پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور نرسز کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ سپیکر اسد قیصر کی صحت یابی کے لیے بھی دعاگو ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے پوری دنیا کے رہنماؤں کی اصلیت سامنے آئی ہے، امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کی بھی اصلیت سامنے آگئی ہے کیونکہ بحران قیادت کا امتحان ہوتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب جو وزیر صحت بھی ہیں آج بھی اسمبلی میں موجود نہیں ہیں، حالانکہ انہیں ایوان اور عوام کو آگاہ کرنا چاہیے جو ان کا فرض ہے۔ ہم کہتے ہیں اگر آپ لیڈر ہیں تو پھر جو دوسروں ے توقع کرتے ہیں وہ خود بھی کرنا پڑتا ہے، آج بہتر ہوتا کہ وزیراعظم اسمبلی میں موجود ہوتے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کا کیس آیا تو میں نے کہا تھا کہ مل کر کام کریں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس کے جواب میں ہمارے رہنماؤں اور ہمارے وزیراعلیٰ کو حکومت پاکستان کی اعلیٰ سطح سے گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا، ان کی محنت اور کوششوں کی کردار کشی کی گئی۔ حکومت کے ایک عہدیدار نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سندھ کے عوام کو جہالت کی وجہ سے کرونا لگ گیا ہے، وقت اس طرح کی سیاست کا نہیں تھا کیونکہ پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم درخواست کرسکتے ہیں کہ آپ پاکستان کی حکومت ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم جنگ کی حالت میں ہوں وزیراعظم کہیں سندھ جا کر خود لڑے اور ہتھیار ہم نہیں دیں گے تو کیا ہوگا۔ وزیر خارجہ کہتے ہیں حفاظتی کٹس موجود ہیں اگر نشترہسپتال ملتان میں کٹس وافر تھیں تو پھر پاکستان پیپلزپارٹی کو کٹس کیوں دینا پڑیں۔ دنیا میں طبی عملے کو پیکجز دیے جارہے ہیں اور خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کیا ہوتا ہے، بلوچستان میں ڈاکٹروں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پنجاب میں ڈاکٹروں کو بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے۔

وزیرخارجہ کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کہا کہ وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور ہم بات کرنے کو تیار ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بیانات ذمہ دارانہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے اور اگر کچھ کہتے ہیں تو اس سے ہماری رہنمائی ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے وفاقی حکومت کے سندھ سے منتخب رہنماؤں کے بیانات غیرذمہ دارانہ ہوتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ جنگ کا وقت ہے تو ہمارا وزیراعظم موجود نہیں ہے، وزیراعظم کنفیوز ہے اور جو ان کی ذمہ داریاں ہیں وہ پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا معاشی مشکلات دوسرے ممالک میں نہیں ہیں، بنگلہ دیش، بھارت، نائیجیریا، افریقہ، ایتھوپیا اور افغانستان میں معاشی مشکلات نہیں ہیں صرف پاکستان میں معاشی مشکلات ہیں، اگر وہ ممالک لاک ڈاؤن بھی کر سکتے ہیں، معیشت کو بھی سنبھال سکتے ہیں اور اپنے عوام کو ریلیف بھی دے سکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان، افغانستان اور مالدیپ تین ممالک جو کرونا کی وبا کی وجہ سے کساد بازاری کا شکار ہوسکتے ہیں، جہاں یہ حقائق ہیں اس کی تیاری کرنی ہے اور اپنے عوام کا تحفظ کرنا ہے لیکن یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ ایسا کیا ہے کہ پاکستان افغانستان اور مالدیپ کے ساتھ کساد بازاری میں جانے والا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرونا سے پہلے ہمارے معاشی حالات بہت خراب تھے، ہمارے غریب اور مزدور اس وقت بھی پریشان تھے اور کرونا وائرس نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔ آج دہاڑی دار طبقے کو سفید پوش کو وفاقی حکومت نے کچھ نہیں دیا اور اب پابندیوں میں نرمی کررہے ہیں اور جب لاک ڈاؤن تھا تو غریبوں کو ریلیف نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کرونا ریلیف آرڈیننس منظور نہیں کر رہی ہے جو اسی وبا سے متاثر ہونے والے افراد کے لیے ہے لیکن سندھ میں ریلیف کو پی ٹی آئی سبوتاژ کر رہی ہے اور میں مطالبہ کرتا ہوں کہ گورنز سندھ آج ہی اس آرڈیننس کو منظور کریں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں ہم کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ پی ٹی آئی حکومت کام کرنے نہیں دیتی، میں صرف سندھ کی بات نہیں کر رہا بلکہ پورے پاکستان کی بات کر رہا ہوں، پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کی سیاست اور حکومت آپ کرتے ہیں اور وہ کرونا کے وبا کے موقع پر چھوڑنی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے اورجگہ جگہ جانے کو تیار ہیں، ہم یہ کہتے کو تیار ہیں کہ یہ ہمارا وزیراعظم عمران خان ہے کیونکہ ہم کر ایک طاقت بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کو مل اکٹھے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے معاشی معاملات ہوں، کشمیر کا مسئلہ ہو یا اب کرونا کا مسئلہ ہے، ہمارا وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہے اور وہ خوش ہیں کہ میں پی ٹی آئی کا وزیراعظم ہوں لیکن اس طرح نہ وفاق چلتا ہے، نہ ریاست اور نہ حکومت چل سکتی ہے۔ ہم کرونا وائرس پر مل کر کام کرنے کو تیار ہیں اور جب تک کرونا وائرس ہے اس وقت تک وزیراعظم کو اپنے بیٹنگ آرڈر پر غور کرنا چاہیے، ذمہ دار اور تجربہ کار لوگوں کو سامنے رکھیں جو ہمارے ساتھ بات کرسکتے ہیں اور تمیز سے بات کرسکتے ہیں۔