Get Alerts

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ 'گوروں' نے پھیلائی ہیں

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ 'گوروں' نے پھیلائی ہیں
ایک سینیئر صحافی اور کالم نگار نے اپنے کالم میں ایک بڑی تاریخی حقیقت بیان کرنے کے بعد ایک استفسار کیا ہے: "ہندو اور مسلمان ایک ہزار سال سے ایک ساتھ پرامن اور خوشحال طور پر رہتے آئے ہیں۔ یہ ایک ہزار سال کا عرصہ کیا جادوئی عرصہ تھا کہ خون خرابے سے بچا رہا۔" (روزنامہ ایکسپریس۔ پیر 14 اکتوبر، 2019)

اس اجمالی بیان کو پڑھنے کے بعد بے اختیار دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس ہزار سالہ پرامن دور کی کچھ تائید تاریخ سے بیان کی جائے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے پروردہ اور لارڈ کلائیو کے خانہ زادوں نے سرزمین ہند کی تاریخ کے متعلق جو جھوٹ گھڑے ہیں ان کا پردہ چاک کیا جائے۔

ہم سنہ 1000 عیسوی سے آغاز کر لیتے ہیں۔ اس سے پہلے ہندوستان میں کچھ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا تھا جس کو رفع کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً سرزمین غزنی سے سلطان عادل حضرت محمود غزنوی کو آنا پڑتا تھا۔ سلطان ذی شان نے اپنے مسلسل دوروں سے کشمیر سے لے کر سومنات تک اور ادھر قنوج، گوالیار، متھرا وغیرہ کے مسلسل دورے کرکے ہر طرف امن و امان کو مکمل طور پر بحال کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کارروائی میں شرپسندوں اور امن و امان کو خراب کرنے والوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا پڑتا ہے۔

مثلاً شہر لاہور پر ایک زمانے میں سماج دشمن عناصر کا قبضہ ہو گیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے ان کو بہت سمجھایا، بہت پیغام بھیجے کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ مجبوراً سلطان کو غزنی سے خود لاہور آنا پڑا۔ آتے ہی اس نے اپنی افواج کو امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا، جو انھوں نے انتہائی جاں فشانی سے چند دنوں میں بحال کر دیا۔

لیکن انگریزوں نے اس واقعہ کو اور ہی طرح اپنی جھوٹ پر مبنی نام نہاد تاریخوں میں بیان کیا ہے کہ "لاہور پہنچنے کے بعد خود تو اس نے شہر میں ہی قیام کیا مگر اپنی فوج کو متعدد حصوں میں تقسیم کرکے شہر کے مختلف حصوں میں غارت گری کے لیے روانہ کیا۔ سپاہیوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دل کھول کر شہر اور اس کے آس پاس کے قصبوں اور دیہاتوں کو لوٹا اور بے شمار مال غنیمت لے کر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔"

یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا بیان ایک نام نہاد مسلمان مورخ ابوالقاسم فرشتہ کا ہے جو انگریزوں کا وفادار ملازم تھا اور ان کی خاطر مسلمانوں اور ہندوؤں میں منافرت پیدا کرنے کے لیے تاریخ کو مسخ کرکے پیش کر رہا تھا۔

سلطان محمود غزنوی کے دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی باہمی محبت کو سمجھنے کے لیے راجہ آنند پال کا سلطان محمود کے نام خط بہت اہم ہے۔ یہ خط البیرونی نے اپنی کتاب الہند میں نقل کیا ہے لیکن متعصب انگریز مورخین کبھی اس کا ذکر نہیں کریں گے۔ راجہ صاحب لکھتے ہیں: "ہم نے سنا ہے کہ ترکوں نے آپ کے مقابلے میں بغاوت کی ہے اور خراسان میں پھیل گئے ہیں۔ اگر آپ منظور کریں تو 5 ہزار سوار اور اس سے دو گونہ پیادے اور ایک سو ہاتھی کے ساتھ ہم خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور اگر آپ فرمائیے تو اپنے بیٹے کو اس سے دو گونہ تعداد کے ساتھ روانہ کریں۔ میری اس پیش کش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم آپ کو اس کے ذریعے خوش کریں بلکہ بات یہ ہے کہ ہم آپ سے شکست کھا چکے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ آپ پر ہمارے سوا دوسرا کوئی غالب آ جائے۔" (کتاب الہند، جلد دوم، ص 145)

اس خط میں آخری دو جملے البیرونی کی شرارت دکھائی دیتے ہیں کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ بھی کچھ وجوہ کی بنا پر سلطان محمود سے دل میں بغض اور عناد رکھتا تھا۔

سلطان محمود غزنوی کی وفات کے بعد کچھ عرصہ حالات پھر خراب رہے۔ چنانچہ سلطان شہاب الدین غوری نے، عبدالقادر بدایونی کے بقول، "سات بار ہندوستان کا سفر کیا" اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں باہمی الفت کو فروغ دیا۔ سلطان کی وفات کے بعد اس کے جانشیوں نے یہ سوچ کر کہ بار بار غزنی سے آنے میں وقت لگتا ہے، دہلی میں مستقل ڈیرہ جما لیا۔ اس کے بعد تو ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین آنے والی کئی صدیوں تک محبت کا زم زم بہتا رہا۔

سلاطین دہلی ہندوؤں کے ساتھ محبت کے مشن کو فروغ دینے کی خاطر تقریباً ہر سال مالوہ، اجین، گجرات، بنگال اور دکن کے دور دراز علاقوں کی سیر کیا کرتے تھے۔ رنتھمبور اور گوالیار کے قلعے تو ان کے بہت پسندیدہ مقامات تھے۔

سرزمین ہند کے امن و امان اور عیش و عشرت کی داستانیں دور دور تک پہنچ چکی تھیں۔ اس لیے کئی بادشاہوں نے دلی کی زیارت کے لیے سفر کیا۔ سب سے پہلے صاحب قرآن امیر تیمور نے دلی کو شرف باریابی عطا کیا۔ انھوں نے دلی کے تاریخی مقامات کی زیارت کی اور اہل دہلی کی مہمان نوازی کو دل کھول کرسرخ رنگین داد دی۔ واپسی پر اہل دہلی نے انھیں بے شمار تحائف دے کر رخصت کیا۔

اس کے بعد مغل بادشاہوں کے دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس قدر باہمی محبت اور یگانگت پیدا ہو گئی جس کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کی ایک جھلک حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس محبت کو فروغ دینے میں شہنشاہ عالمگیر اور مہاراج شیوا جی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اورنگ زیب کو تو دکن اتنا پسند آیا تھا کہ اپنے عہد حکومت کے 25 برس وہیں بسر کیے اور اسی خاک میں دفن ہونا پسند کیا۔ اورنگ زیب کے عہد میں اور اس کے بعد ہندوستان میں کسی لڑائی جھگڑے کا معتبر تاریخوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ امن و امان کی یہ حالت تھی کہ ایک تنہا عورت سونا اچھالتی ہوئی پشاور سے مدراس پہنچ جاتی تھی۔ ہندوستان کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت تھی۔ یہاں ہر طرف علم و تحقیق کا سمندر موجزن تھا۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ جبکہ اس زمانے میں یورپ میں چھاپہ خانے کی ایجاد کے باوجود 20 فی صد سے زیادہ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

اسی زمانے میں ایران میں نادر شاہ درانی حکمران بنا تو اس نے کبھی کوئی خاندانی بادشاہ نہیں دیکھا تھا۔ اس کو کسی درباری نے تخت دہلی کی کئی سو سالہ پرانی بادشاہت کی خبر دی۔ نادر شاہ کو بے حد اشتیاق ہوا اس خاندانی بادشاہ کا دیدار کرنے کا۔ چنانچہ اس نے بھی دلی کا ٹور کرنے کا پروگرام بنایا۔ وہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ دلی آیا لیکن دلی کے خاندانی بادشاہ کی شان و شوکت دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا۔ نادر شاہ آداب شاہی سے بھی نابلد تھا۔ اس نے شہنشاہ ہند سے ان آداب کی تعلیم حاصل کی اور اس پر بہت ممنون ہوا۔ اس ممنونیت میں اس نے اہل دہلی کو بھی شریک کیا۔

بر سبیل تذکرہ ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ انگریزوں کی فوج کا ایک ملازم، جو اردو میں مزاح نگاری بھی کرتا تھا، حضرت نادر شاہ کی شان میں بے حد گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے آقایان ولی نعمت کا حق نمک ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقیات والے اس کی لکھی ہوئی تزک نادری کے حوالے دے دے کر، جو قطعاً کوئی تاریخی تصنیف نہیں ہے، اعلیٰ حضرت نادر شاہ کی توہین کرتے رہتے ہیں۔

نادر شاہ کے بعد جس تیسرے بادشاہ نے دلی کی سیر کی، اس کا نام احمد شاہ ابدالی ہے۔ اس کے بعد تو ہندوستان میں ایسا امن و امان قائم ہوا کہ اس پر مسلمان، راجپوت، سکھ اور مرہٹے ناز کرتے تھے اور اہل مغرب رشک کرتے تھے۔ اس زمانے میں انگریز بھی نوکریوں کی تلاش میں ہندوستان آنا شروع ہو گئے تھے۔ بھوکے ننگے، جاہل، علم سے تہی، گنوار انگریز یہاں آتے تو کئی ایک پیسے بچانے کی خاطر یہاں گھر داماد بھی بن جاتے تھے۔ اسی زمانے میں کچھ انگریزوں کا دلی میں مولانا فضل حق خیر آبادی سے مناظرہ ہو گیا۔ انگریزوں نے جب کوپرنیکس اور نیوٹن کے یہ جاہلانہ خیالات بیان کیے کہ زمین ساکن نہیں بلکہ سورج کے گرد گردش کرتی ہے تو مولانا نے دندان شکن دلائل سے ثابت کیا کہ زمین ساکت ہے۔ ان دلائل کی خبر انگلستان پہنچی تو آکسفورڈ اور کیمبرج کی جامعات پر لرزہ طاری ہو گیا۔ کسی انگریز سائنس دان سے ان دلائل کا جواب نہ بن پڑا۔ خفت مٹانے کی خاطر مولانا فضل حق پر 1857 کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کا جھوٹا الزام عاید کر کے انھیں کالا پانی میں قید کر دیا گیا تھا۔

اس ہزار سالہ محبت کو انگریزوں نے سازشیں کر کے ختم کیا اور فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی۔ لیکن یاد رہے کہ مسلمان مورخین بھی اس معاملے میں دروغ گوئی سے کام لیتے رہے ہیں۔ جوزجانی، ضیاء الدین برنی، ملا عبدالقادر بدایونی اور فرشتہ سبھی کذب بیانی کا سہارا لیتے ہوئے جنگ و جدل کا احوال لکھتے رہے ہیں اور مسلمان بادشاہوں کی لوٹ مار کے قصے بیان کرتے رہے ہیں۔ جدید دور کے پوسٹ کولونیل مورخین نے بدلائل ثابت کر دیا ہے کہ یہ بادشاہ جنگ کی خاطر نہیں بلکہ سیر و شکار کی خاطر مختلف علاقوں، شہروں اور قلعوں کا سفر اختیار کیا کرتے تھے۔ 1857 کے بعد جو تاریخیں لکھی گئی ہیں وہ سب جھوٹ اور تعصب پر مبنی ہیں۔ اس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، “یہ گوروں” نے پھیلائی ہیں۔

**
ڈاکٹر ساجد علی نے یہ مضمون تین سال قبل لکھا تھا اور 'ہم سب' پہ شائع ہوا تھا۔ اس میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ سے متعلق بیان کردہ حقائق آج بھی اسی طرح شگفتہ و تازہ ہیں اس لیے یہ مضمون اب نیا دور پر شائع کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر ساجد علی فلسفے کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے فلسفے میں ایم اے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔