خان صاحب! 'مغرب' کے میڈیا سے دور رہیں، آپ شاید اسے جانتے نہیں

خان صاحب! 'مغرب' کے میڈیا سے دور رہیں، آپ شاید اسے جانتے نہیں
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان ہر وقت مغربی دنیا کی مثالیں دیتے رہتے ہیں اور 'مغرب کو میں سب سے زیادہ جانتا ہوں' ان کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔ مگر جب عمران خان مغربی میڈیا کے سامنے آتے ہیں تو وہ مغربی میڈیا کی غیر جانبداری اور سچائی کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی صحافیوں کے سامنے عمران خان کی لاچاری دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے انہیں عوام کے جذبات ابھارنے اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے تو مغرب کی مثالیں پسند ہیں مگر میڈیا انہیں پاکستان ہی کا موافق آتا ہے جہاں اپنی مرضی کے لوگوں سے اپنی پسند کے سوالات کروائے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب خان صاحب مغربی دنیا کو سب سے بہتر جانتے ہیں تو وہ مغربی میڈیا کو بھی سب سے بہتر جانتے ہوں گے تو پھر وہ ان کے سامنے انٹرویو دینے کا رسک لیتے ہی کیوں ہیں؟

عمران خان نے سی این این کی اینکر بیکی اینڈرسن کو چند روز قبل ایک انٹرویو دیا جس میں بیکی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا الزام موجودہ وزیر اعظم اور سکیورٹی اداروں پر لگایا ہے جو کہ ایک سنگین الزام ہے، آپ کے پاس ان الزامات کا کیا ثبوت ہے؟ عمران خان کے پاس حسب معمول کوئی جواب اور ثبوت نہیں تھا اس لیے وہ جواب دینے کے بجائے اپنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے درمیان رسی کشی کا سیاق و سباق بتانے لگ گئے۔ عمران خان نے پاکستان کے کچھ صحافیوں کا ذکر بھی چھیڑ دیا اور کہنے لگے کہ ان صحافیوں نے اپنے ٹویٹس کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ میرے اوپر حملہ مذہبی شدت پسند نے کیا ہے اور کس طرح میں نے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے جس کے بعد وہ مجھے مارنے پہ تل گئے ہیں۔ سی این این کی اینکر بار بار قتل کے الزامات کے ثبوتوں سے متعلق دریافت کرتی رہیں مگر خان صاحب ان کے جواب میں مسلسل سازشی تھیوریاں ہی سناتے رہے۔

ترکی کے چینل ٹی آر ٹی کو بھی عمران خان نے ایک انٹرویو دیا تھا جس میں اینکر نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا الزام لگاتے ہوئے لائن کراس کی ہے آپ کے پاس اس کے کیا ثبوت ہیں؟ عمران خان سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی پارٹی کی مقبولیت اور ضمنی انتخابات کے بارے میں بتانا شروع ہو گئے۔ اینکر نے سوال پوچھا کہ جب آپ کو اس بات کا علم تھا کہ آپ پر حملہ ہو سکتا ہے تو اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کیوں نہیں اختیار کی گئیں؟ اس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں وہ بہت طاقتور ہیں، اگر وہ مجھے مارنا چاہتے ہیں تو پھر میں بلٹ پروف انتظامات میں بھی نہیں بچ سکتا۔ میرے پاس دو آپشنز تھے؛ ایک یہ کہ میں آزادی مارچ کو روک دوں اور اپنی جان بچانے کے لیے گھر بیٹھ جاؤں مگر میں نے عوام کی آزادی کو ترجیح دی۔ لیکن یہ اس صحافی کے سوال کا جواب نہیں تھا کیوں کہ اس کا کہنا تھا کہ آپ نے شدید خطرات کے باوجود احتیاطی تدابیراختیار کیوں نہیں کیں مگر خان صاحب جواب دینے کی بجائے حسب معمول اپنی رام کہانی سناتے چلے گئے۔

عمران خان پھنسے تو وہاں جب میزبان نے پوچھا کہ آپ فوج کو اپنی طرف چاہتے ہیں یا اس کی غیر جانبداری تو عمران خان نے پہلے تو آئیں بائیں شائیں سے کام لیا۔ وہی 'میں ہاکی کا بہت بڑا پلیئر تھا، ایک دن ادے بھائی کو میری کسی بات پر غصہ آ گیا' وغیرہ، مثلاً میں کرکٹ کا بہت بڑا کھلاڑی تھا، پہلی بار نیوٹرل امپائر لے کر آیا اور یہ وہ۔ لیکن پھر بولے کہ اس معاملے پر پاکستان کو جو بھی صورت بحران سے نکال سکتی ہو، میں وہ چاہتا ہوں۔ یعنی یہاں امپائر نیوٹرل نہ ہو، یہی بہتر ہے۔ شاید اس کے بنا جیت کا اتنا یقین نہیں جتنا بطور کرکٹر تھا۔

اسی طرح جرمنی کے ایک چینل کو انہوں نے انٹرویو دیا جس میں خاتون صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا الزام اپنے ملک کے وزیر اعظم اور ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اوپر لگایا ہے جو کہ بلاشبہ ایک سنگین الزام ہے، آپ کے پاس ان الزامات کا کوئی ثبوت ہے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد کے سیاسی حالات کس طرح بدل گئے ہیں اور ان کی پارٹی کس طرح پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی ہے اور کس طرح ان کے مخالفین ان کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اینکر نے کہا کہ جو آپ بتا رہے ہیں وہ شرلاک ہولمز کی طرح افسانوی اور قیاس آرائی پر مبنی کہانی لگ رہی ہے۔ صحافی نے پوچھا کہ آپ جو بتا رہے ہیں کہ آپ کو راستے سے ہٹانے کے لیے مارنے کی سازش ہورہی ہے یہ سچ ہو سکتا ہے مگر آپ جو وجہ بتا رہے ہیں وہ حالات پہ انحصار کرتی ہے نہ کہ ثبوتوں پر تو کیا آپ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے؟ عمران خان نے کہا کہ اس سازش میں تین لوگ شریک ہیں اور یہ سازش دو ماہ پہلے شروع ہوئی تھی۔ یہاں بھی عمران خان ثبوتوں پہ بات کرنے کے بجائے وزیر داخلہ اور ایجنسیوں پر الزام لگانا شروع ہو گئے۔

عمران خان کو چاہیے کہ وہ عالمی میڈیا کو انٹرویو دینے کا خطرہ ہی مول نہ لیا کریں کیوںکہ وہاں پر آپ کی شخصیت کا رعب اور دبدبہ نہیں چلتا بلکہ آپ کو حقائق پر مبنی گفتگو کرنی پڑتی ہے اور سوالوں کے متعلقہ جواب دینے پڑتے ہیں۔ عمران خان کو صرف پاکستان میں یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے اینکرز اور صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو سخت سوال کرنے کے بجائے زیادہ وقت خان صاحب کی مدح سرائی میں گزار دیتے ہیں۔ عمران خان کو مزید اپنی، اپنے ملک اور ملکی اداروں کی بین الاقوامی فورم پر جگ ہنسائی نہیں کروانی چاہیے۔