ایک ایلفا براوو چارلی سویلین پاکستانیوں پہ بھی بننا چاہیے

ایک ایلفا براوو چارلی سویلین پاکستانیوں پہ بھی بننا چاہیے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک ہماری فوج ہے۔ کہیں یہ بات ہماری ناشکری قوم بھول نہ جائے اس واسطے ہر چند سالوں بعد کوئی فلم یا ڈرامے کی صورت میں شعیب منصور جیسے عظیم ہدایتکار ہماری یادداشت کو مضبوط کر دیتے ہیں۔

ویسے ہی ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیا اس ملک کی اس عوام پر بھی ایک ایلفا براوو چارلی جیسا ڈرامہ نہیں بننا چاہیے؟ آپ کو ہر گھر میں ایک ایلفا، براوو اور چارلی ملے گا۔ یہ 22 کروڑ کی عوام نے جس طرح رنگ برنگے حکمرانوں کی حکمرانی میں خود کو خود ہی جیسا تیسا کر کے سنبھالے رکھا، کیا اس عوام کو خراجِ تحسین نہیں پیش کرنا چاہیے؟ جیسے ہمارے فوجی بھائی اپنی نذرانہ جاں پیش کرنے میں کبھی نہ ہچکچائے ویسے ہی اس ملک کے کئی سویلین بھی کسی سے کم نہ تھے۔

ان میں پولیس کے ایک سینئر افسر ہوا کرتے تھے جن کا نام ملک سعد تھا۔ ان کا تعلق کوہاٹ سے تھا۔ ملک سعد تھے تو انجینئر لیکن ان کو بچپن سے پولیس فورس میں جانے کا شوق تھا۔ انہوں نے سی ایس ایس کلیئر کر لیا اور وہ پولیس میں آئے۔ ان کا آنا تھا کہ مجرم پناہ مانگتے تھے کہ کہیں ان کا تبادلہ ان کے علاقے میں نہ ہو جائے۔

جب ان کا تبادلہ بطور سی سی پی او پشاور ہوا تب میں پشاور کے ایک کالج کا طالب علم تھا۔ ایک دن میں نے اپنی گاڑی جگہ نہ ملنے پر پشاور صدر میں نو پارکنگ میں کھڑی کی۔ جب میں سودا سلف لے کے واپس آیا تو میری گاڑی غائب تھی۔ پہلے تو میں ڈر گیا کہ کہیں میری گاڑی چوری نہ ہو گئی ہو۔ پھر جب اِدھر اُدھر دیکھا تو کیا دیکھا کہ میری گاڑی ہوا میں ہے۔ ایک ٹریفک پولیس کا کار لفٹر میری گاڑی کو کہیں کونے کھدرے میں گھسانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ میں بھاگا بھاگا اس لفٹر کے ساتھ کھڑے پولیس والے کے پاس گیا جو چالان لکھنے میں مصروف تھا۔ میں نے کہا کہ سر یہ میری گاڑی ہے۔ میں معافی چاہتا ہوں میں نے گاڑی غلط پارک کی ہے لیکن مہربانی فرمائیں اور گاڑی میرے حوالے کر دیجئے۔ پولیس والے نے مجھے کہا کہ گاڑی آپ لے جائیں لیکن چالان تو آپ کو بھرنا پڑے گا۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ تو مجھے ایسے نہیں جانے دے گا تو میں نے اس کو اپنے ایک چچا کا حوالہ دیا جو کہ ایک سرکاری افسر تھے، یہ سوچ کے کہ شائد یہ مجھے آسانی سے چھوڑ دے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ اس پولیس والے نے انتہائی پر اعتماد انداز سے میری طرف دیکھا اور کہا "ملک سعد نے کہا ہے کہ اگر میرا باپ بھی قانون توڑے تو اسے بھی مت چھوڑنا"۔ اس کے یہ کہنے کے بعد میری بولتی بند ہو گئی اور میں نے خوشی خوشی چالان بھر کے پولیس سے اپنی گاڑی کی چابی لی اور روانہ ہو گیا۔ گاڑی میں جب بیٹھا تو پہلی سوچ یہ آئی کہ پولیس والے کی باڈی لینگوئج اتنی پر اعتماد؟ ایسا اعتماد صرف ایک عظیم رہبر کی رہنمائی میں آ سکتا ہے۔

میرے پنجابی بہن بھائی اس بات کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے مکینوں پہ جنرل مشرف کی حکومت آنے کے بعد کیا گزری۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا تھا کہ دھماکہ نہ ہوا ہو، خاص طور پہ پشاور میں۔ فاٹا میں آئے دن ڈرون حملے، آئے دن پناہ گزینوں کی نقل مکانی۔ ہم پہ جو گزری آپ کو کیا پتا۔ ایسے میں ملک سعد جیسے بہادر افسروں اور اے این پی کے چند بہادر سیاستدانوں نے ہمارے حوصلے بلند رکھے۔ سرکاری افسروں اور لاتعداد پولیس اہلکاروں نے فوج کے شانہ بشانہ اور اپنے تئیں دہشت گردی کا خوب مقابلہ کیا اور  دہشت گردوں کے عزائم کو کبھی عظیم ہونے نہ دیا۔

ملک سعد، عابد علی اور صفوت غیور وہ تین ڈی آئی جی ہیں جن کو پھر دہشت گردوں نے باری باری شہید کر دیا۔ لیکن وہ آج بھی زندہ ہیں۔ وہ اس طبیعت کے بھی نہیں تھے کہ اپنی خدمات کے بدلے کچھ مانگتے۔ کسی دن ان سب پہ مزید تحقیق کے ساتھ لکھوں گا لیکن ملک سعد کے حوالے سے ایک اور واقعہ جو ایک پولیس افسر نے ایک تقریب میں سنایا وہ پیش خدمت ہے۔

 ایک دن ملک سعد اپنے ڈرائیور کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ ڈرائیور نے ملک سعد سے مخاطب ہو کر کہا کہ سر آپ لوگوں کے جنازے پر کیوں نہیں جاتے۔ ملک سعد نے ڈرائیور کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جان کی امان پاتے ہوئے ڈرائیور نے مزید کہا کہ سر ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ جو شخص اور لوگوں کے جنازے پہ نہیں جاتا ایسے آدمی کے جنازے پہ بھی کوئی نہیں جاتا۔ ملک سعد نے اپنے ڈرائیور کی اس بات کا جو جواب دیا آگے جا کے ہو بہو تاریخ نے بھی اس کی گواہی دی۔ ملک سعد نے کہا "میرا جنازہ تاریخی ہوگا"۔ ایسا ہی ہوا، قریباً 2 لاکھ لوگوں نے جنازے میں شرکت کی اور ان کی سروس کے دوران جہاں جہاں وہ رہے وہاں وہاں سے لوگ ان کے جنازے تک پہنچے۔

ملک سعد صرف 47 سال کی عمر میں محرم ہی کے دنوں میں آج سے 12 سال پہلے ایک خودکش دھماکے میں شہید ہو گئے اور خیبر پختونخوا کے لاکھوں لوگوں کو سوگوار کر گئے۔ آپ ان کو ایلفا کہیں،  براوو یا چارلی ایک ہی بات ہے۔

ایک ایسی شخصیت اور ہے کہ جن کا ذکر کئے بغیر یہ تحریر ادھوری ہو گی۔ مجھے بچپن سے وکالت کا شوق تھا اور کئی اور وکلا کی طرح میرے آئیڈیل بھی بیرسٹر اعتزاز احسن تھے۔ لیکن ایک دن انہی سے ملتا جلتا نام رکھنے والے ایک نوجوان نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ تب سے اب تک اور شائد آخر تک اب میرا آئیڈیل وہی نوجوان ہے جس کا نام اعتزاز حسن ہے۔ ہنگو سے تعلق رکھنے والے اس 17 سالہ نوجوان نے بغیر کسی تربیت کے جو کیا شائد ہی اتنی بہادری کسی میں ہو۔

صبح جب بچے سکول کے اندر داخل ہو رہے تھے تب عین اسمبلی کا وقت تھا۔ ایک خودکش بمبار اس ارادے سے کہ اسمبلی میں دھماکہ کرے اور زیادہ سے زیادہ نقصان ہو سکول کے گیٹ کی طرف رواں تھا۔ اتنے میں اعتزاز کی اس پر نظر پڑی اور اس نے خودکش بمبار کے پیچھے آواز ماری۔ جب وہ سکول کی طرف بھاگنے لگا تو اعتزاز نے اسے دبوچ لیا۔ اس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سینکڑوں بچوں کی زندگی بچائی اور سینکڑوں بچوں کو معذوری سے بھی بچایا۔ سینکڑوں خاندان آج بھی اس کا نام لیتے نہیں تھکتے، سینکڑوں مائیں خراج تحسین پیش کرتے نہیں تھکتیں۔

قوموں کو بیرونی خطرات سے فوج بچاتی ہے جبکہ اندرونی مسائل ہمیشہ سویلین نے حل کئے ہیں۔ کیا آپ بھی کسی ایسے سویلین کو جانتے ہیں جو ایلفا ، براوو یا چارلی کہلائے جانے کا حقدار ہو ؟

ازراہ تفنن