کراچی کے مسائل کا حل کیا ہے؟

کراچی کے مسائل کا حل کیا ہے؟
 حالیہ بارشوں اور شہری سیلاب کے بعد سے   یہ بحث زدعام ہے کہ شہر کراچی کے مسائل کیا ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟  اسی طرح  دوسری جانب کراچی  پیکیج اور کراچی  ٹرانسفارمیشن پلان  بھی موضوع بحث ہے اور  ہر شخص اپنے فہم کے مطابق رائے  دے رہا ہے  دوسری جانب مختلف سیاسی تنظیمیں بھی ان معاملات میں دلچسپی لیتی نظر آرہی ہیں  ملکی میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک یہی  باتیں چل رہی ہیں تو   ضروری امر یہ کہ  حکمرانوں کی توجہ شہر کے حقیقی  بنیادی مسائل   اور ان کے حل  کی جانب دلائی جاسکے-

آج شہر قائد کو ہم دیکھتے ہیں تو شہر مختلف طرح کے مسائل کا شکار نظر آتا ہے جبکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے نہ وسائل موجود ہیں اور نہ ہی اداروں کی دلچسپی- شہر کراچی کا سب سے بنیادی مسئلہ یہ کہ   اس شہر کی آبادی کتنی ہے  ؟  2017   میں کی گئی مردم شماری کے مطابق  شہر کراچی کی  آبادی ڈیڑھ  کروڑ ہے جبکہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس شہر کی آبادی  ڈھائی کروڑ سے زائد ہے تو بنیادی مسئلہ یہ ہوا کہ  بقیہ  ایک کروڑ آبادی کے لئے  جو وسائل  درکار ہیں ان کا کیا ہوگا؟  وہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مردم شماری میں دکھائی گئی آبادی ، حقیقی آبادی کے برابر نہ ہو-

اس کے علاوہ دیگر مسائل جس سے عام شہریوں کو حد درجہ تکالیف کا سامنا ہے جیسے کہ  صاف اور محفوظ پانی کی کمی ، رہائش کی کمی ،  کچرا اٹھانے کا  نا قص انتطام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی،  ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں،   صحت و تعلیم کی سہولیات کی کمی، بجلی کی کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہر میں کھلی جگہوں اور کچی زمین کی کمی اور ساتھ ہی   ، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب مسدود کرنے والے مقامات کی نشاندہی وغیرہ۔ الغرض اس وقت شہر   کراچی میں مسائل زیادہ ہیں  جبکہ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں  اور اگر  جو ہیں تو  ان کا درست استعمال نظر نہیں آرہا-

وقت کا تقاضا ہے کہ شہرکراچی میں  منصوبہ بندی کے تحت   بنیادی ڈھانچے  اور انتظامی معا ملات   میں بہتری لائی جائے-  جس کے لیے مناسب فنڈز اور متعلقہ پیشہ ور افراد اور ماہرین کی شمولیت ضروری ہے مگر اس سے قبل یہ تعین کرنا  ہوگا  کہ کونسے منصوبے ایسے ہیں جنہیں اس کراچی تبدیلی منصوبے  میں شامل کرکے  ترجیحی بنیادوں پر   مکمل کیا جائے  اگر اس کی درست سمت کا  تعین نہ کیا گیا  تو مستقبل میں حالات مزید بدتر ہوتے نظر آرہے ہیں-

ماہرین شہری منصوبہ بندی کے مطابق ،   حالیہ شہری سیلاب کے تناظر میں کراچی کے بنیادی ڈھانچے اور انتظامی پریشانیوں کے حل کے لئے  چند نکات پر کام ضروری ہے جیسے کہ نکاسی آب کے نظام میں بہتری لانا یعنی کہ کراچی کے نالوں کی صفائی اور  چوڑائی کو  بحال کرنا  ، کچرا اٹھانے اور تلف کرنے کا بہتر نظام، با اختیار مقامی حکومت اور استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنا

ضرورت اس امر کی ہے کہ  کہ شہر کے  بڑے  نالوں کو سمندر تک راستہ دیا جائے مگر ساتھ ہی  یہ فیصلہ آسان نہیں کہ شہر کراچی میں نکاسی آب کا انفرااسٹرکچر دوبارہ بنایا جائے یا اسی کو بہتر کیا جائے دونوں صورتوں میں سب سے پہلے ضرورت ہے کہ ایک وسیع سروے کیا جائے جس میں یہ تعین کیا جائےکہ کونسے نالے ایسے ہیں جن کی گنجائش ختم ہوچکی ہے کن کن کو بہتر کیا جاسکتا ہے کیونکہ شہر کراچی اب اتنا زیادہ پھیل چکا ہے کہ ایک دن میں پورے شہر کا چکر لگانا ممکن نہیں رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ پہلےکوئی تحقیق کی جائے اور نقشوں کی مدد  لی جائے جس میں نشیبی علاقوں اور مسدود مقامات کی نشاندہی ہو اور اس کے بعد کوئی فیصلہ عمل میں لایا جائے۔  کچھ مقامات تو ایسے ہیں جو پہلے سے علم میں ہیں  جیسے ڈی ایچ اے فیز 7 نے محمود آباد نالےکو بلاک کردیا  ہے۔  اسی طرح  سولجر بازار نالے کو  مائی کولاچی بائی پاس پر  کے پی ٹی آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی نے بلاک کردیا ہے۔ نالوں کے دہانوں کو جن مقامات پر بند کردیا گیا ہے انھیں کھولا جائے نشیبی علاقوں اور نالوں کی حدود میں بننے والی تعمیرات کو ختم کرتے ہوئے رہائشیوں کو متبادل رہائش فراہم کرنا ضروری ہے-

شہر کراچی کے نالوں کی چوڑائی بحال کرنے کے لیے پہلے متاثرین کا سروے ضروری ہے کیونکہ شہری غریب طبقے کے لیے بھی رہائش ایک بنیادی ضرورت ہے- ہم نے ماضی قریب میں دیکھا ہے کہ ایسے آپریشن میں صرف غریبوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جیسا کراچی سرکلر ریلوے کی ملحقہ آبادیوں میں ہوا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ان متاثرین کی آبادکاری پر توجہ نہیں دی جارہی- نالوں کے علاوہ کراچی کی عمارتوں  کے نکاسی آب کے نظام میں بہتری لانا بھی ضروری ہے جس میں ہر عمارت کے  ڈیزائن اور سائٹ کی منصوبہ بندی میں نکاسی آب کے منصوبے کو شامل کیا جائے اور اسے  نالوں کے اس  جال سے جوڑا جائے جو  اسےسمندر تک لے جاسکے-

لیکن نالوں کی صفائی سے قبل شہر سے کچرا اٹھائے جانے کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا اس وقت شہر کا تقریبا چالیس فیصد کچرا  نالوں میں پھینک دیا جارہا ہے۔شہر میں کوئی لینڈفل سائیٹ موجود نہیں  جو تکینکی تقاضوں کے مطابق ہو-  عوام ہوں یا ادارے کسی کو یہ واضح نہیں کہ شہر کے کس علاقے و ضلعے میں کچرا اٹھانا کس کی ذمہ داری ہے؟   شہر میں کچرا کنڈیوں کا تعین ضروری ہے ساتھ ہی  وہ اشیاء جنہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاسکتا ہے  ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے مقامی سطح پر آمدنی پیدا کی جاسکتی  ہے-

شہر کراچی کو ایک با اختیار مقامی حکومت کی ضرورت ہے جو اپنی آمدنی خود پیدا کرسکے،  جو کنٹونمنٹ کے علاقوں اور دیگر تمام علاقوں سمیت پورے کراچی شہر کی منصوبہ بندی اورمسائل کے حل کی   ذمہ دار ہو  مگر موجودہ صورتحال میں بلدیاتی اصلاحات کی ایک موثر تجویز کے بغیر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی  اور اس کے لئے  زیادہ تر کام نچلی سطح پر کرنا پڑے گا اور اس میں یونین کونسلوں کو بااختیار بنانا اور یونین کونسل کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تشکیل میں شہریوں کی شمولیت کی ضرورت ہے۔

کراچی میں 'منصوبہ بندی' اور اس پر' عمل درآمد' کے لئے مناسب اعداد و شمار جمع کرنے ، ماہرین کی تحقیق  اور اس طرح کے اقدام کے لئے ' عوامی شرکت ' کی بھی  ضرورت ہے جس میں مطلوبہ فنڈز اور ماہرین کی نمائندگی ہو کیونکہ تازہ ترین دستاویزات و تحقیق کی عدم موجودگی میں کوئی منصوبہ بندی اور انتظامی اسکیم  کامیاب نہیں ہوسکتی ۔  ماضی میں بنائے گئے منصوبوں میں  عوامی شرکت کو نظر انداز کیا گیا۔  یہی وجہ ہے کہ  آج ایک طرف شہر میں بی آر ٹی منصوبے بنائے جارہے ہیں تو دوسری طرف عوام پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے ۔  اس کے ساتھ ہی تمام منصوبوں میں استحکام  کو مدنظر رکھنا  ضروری ہوگا۔ کیونکہ ماضی میں کئی منصوبے بنائے گئے مگر  وہ مستحکم نہ ہونے کے سبب جاری نہ رہ سکے اور بنیادی طور پر عوامی پیسہ ضائع ہوا-

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے