عید، کشمیر اور کراچی

عید، کشمیر اور کراچی
تحریر: (عبدالقیوم خان کنڈی) میری طرف سے آپ سب کو اور آپ کے اہل خانہ کو بہت عید مبارک ہو۔ اسلامی روایت ہے کہ حالات چاہے کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں عید منائی جائے اسلیے کہ اسلام ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اچھے مستقبل کی امید کبھی نہیں چھوڑنی چاہئے۔ مگر قرآن میں خدا نے ہمیں یہ بھی بتا دیا کہ خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ ہو۔ اسلیے ہم عید تو ضرور منائیں مگر اس بات پر بھی غور کریں گے کہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کیوں ہو رہا ہے، کراچی کچرے اور بارش کے پانی میں ڈوب کیوں گیا اور گیارہ خاندان اس عید پر خوشیاں منانے کے بجائے ماتم کناں کیوں ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

میں بار بار آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ ناکام ہو چکی ہے اور اب ہمیں ایک نئی جمہوریہ کی تعمیر شروع کرنی چاہیے۔ اب ان دو واقعات کو ہی لے لیں کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے۔

کشمیر کے معاملے میں عمران خان خود یہ قبول کر چکے ہیں کہ انہیں بہت پہلے سے یہ اندازہ تھا کہ مودی کیا کرنے جا رہا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ انٹیلیجنس نے بھی بہت پہلے سے حقائق بتا دیے ہوں گے۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے اسے روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا؟ کیوں؟ اسلیے کے خان صاحب فوج کی طرف دیکھتے رہے کہ وہ بتائیں گے کیا کرنا ہے اور فوجی قیادت اس میں مصروف رہی کہ سعودی عرب، عرب امارات اور چین سے پیسے اکھٹے کیے جائیں تاکہ حکومت چل سکے یعنی جو جس کا کام ہے وہ اپنا کام نہیں کر رہا۔ ٹرمپ نے ثالثی کا وعدہ کیا تو خوشی سے ناچتے رہے مگر جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کو غیر قانونی طور پر ضم کر لیا تو امریکہ بہادر نے بیان دیا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر میں ہمیں ہزیمت اسلیے ہوئی کہ موجودہ جمہوریہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور اس کے تحت قائم ریاست کی بین الاقوامی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔

کراچی میں عمران خان کے قریبی دوست علی زیدی نالے صاف کرنے نکلے ہیں، اچھی بات ہے مگر ساتھ ہی چندہ بھی مانگ رہے ہیں۔ اس میں بھی کوئی مذائقہ نہیں مگر چندوں کا حساب ضرور رکھیں اسلیے کہ ان کی شہرت اس میں کوئی اچھی نہیں، مگر کیا یہ مسئلے کا مستقل حل ہے۔

مسائل کا حل اداروں کی تعمیر میں ہے جس میں عمران خان کی حکومت مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ کراچی کی تینوں پارٹیاں یعنی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور عمران خان کی پارٹی اس وقت حکومت میں ہیں۔ مگر ان کی کراچی کی ٹیم دوسری پارٹیوں پر تنقید کر رہی ہے جو سیاست کا حصہ ہے مگر کیا ان کی حکومت خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اچھی کارکردگی دکھا سکی۔ حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اب تک ان دو صوبوں میں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر عمران خان کی ٹیم خیبر پختونخوا، پنجاب اور مرکز میں کچھ نہ کر سکی تو کراچی کے لوگ کس طرح یقین کریں کے وہ ان کے مسائل حل کر دیں گے، یہ بھی اس جمہوریہ کی ناکامی کی شہادت ہے۔ اپنا کام کوئی کرنے کو تیار نہیں اور دوسروں پر تنقید کرکے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں۔

کراچی اور کشمیر میں ناکامی سے سبق ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ اب ایک نئی جمہوریہ کی تعمیر کریں۔ اس سلسلے میں آپ سے تعاون کی امید ہے ورنہ خدا نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کے جو قوم خود اپنی حالت نہیں بدلتی تو خدا بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔