یہ انکشاف کیا ہے صحافی اسد علی طور نے اپنے یوٹیوب چینل پر جس میں انہوں نے بتایا کہ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ نئے آرمی چیف کا عہدہ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر سنبھالیں گے جب کہ لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات ہوں گے۔
صحافی اسد علی طور نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا تھا کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ اہم تعیناتی 'میرٹ' پر ہو۔ پھررفتہ رفتہ ان کی ٹون میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی۔ صدر عارف علوی نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے عمران خان کی ملاقات کا اہتمام کیا اور اس کے علاوہ مزید دو مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں۔ صدر عارف علوی نے دونوں کے مابین پیغام رسانی کے فرائض بھی انجام دیے۔
مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے ہفتے کی شام ہونے والی میٹنگ میں اتفاق کیا کہ کسی بھی متنازع صورتحال سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ سینیئر ترین افسر کو آرمی چیف تعینات کر دیا جائے۔ اب اس فیصلے کے تحت یہ صورتحال بنتا ہے کہ سینیئر ترین افسر لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر ہیں جو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت مکمل ہونے سے دو روز قبل ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس صورت میں ان کے بعد سینیئر ترین افسر لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد ہوئے اور ان کے آرمی چیف ہونے کے مکانات زیادہ ہوں گے۔
ان دونوں سینیئر تین افسران کی محکمانہ کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر حافظ قرآن ہیں۔ بہت محنتی ہیں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے کافی قریبی ہیں۔ انہوں نے 27 نومبر کو ریٹائر ہونا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر منگلا میں آفیسرز ٹریننگ سکول پروگرام کے 17ویں کورس کے ذریعے سروس میں شامل ہوئے اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا، وہ اس وقت سے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف کے قریبی ساتھی ہیں جب سے انہوں نے جنرل باجوہ کے ماتحت برگیڈیئر کے طور پر فورس کمانڈ ناردرن ایریاز میں فوجیوں کی کمان سنبھالی تھی جہاں اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ کمانڈر 10 کور تھے۔ بعد ازاں انہیں 2017 کے اوائل میں ڈی جی ملٹری انٹیلیجنس مقرر کیا گیا اور اگلے سال اکتوبر میں آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا گیا۔
تاہم اعلیٰ انٹیلیجنس افسر کے طور پر ان کا اس عہدے پر قیام مختصر مدت کے لئے رہا کیونکہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے اصرار پر آٹھ ماہ کے اندر ان کی جگہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کا تقرر کر دیا گیا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر اس وقت جی ایچ کیو میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے قبل انہیں گوجرانوالہ کور کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا جہاں وہ اس عہدے پر دو سال تک فائز رہے تھے۔ ستمبر 2018 میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو 3 سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی لیکن انہوں نے دو ماہ بعد چارج سنبھالا جس کے نتیجے میں لیفٹننٹ جنرل کے طور پر ان کا چار سالہ دور 27 نومبر کو ختم ہو جائے گا۔
اسد طور نے مزید کہا کہ اسی طرح لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد بھی قابل اور اہل افسر ہیں۔ ساحر شمشاد مرزا کا فوج میں بہت متاثر کن کریئر رہا ہے اور گذشتہ 7 برسوں کے دوران انہوں نے اہم لیڈرشپ عہدوں پر بھی کام کیا ہے۔ ان کو جنرل راحیل شریف کے آخری دو برسوں میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی حیثیت سے توجہ ملنا شروع ہوئی۔ اپنی اس حیثیت میں وہ جی ایچ کیو میں جنرل راحیل شریف کی اس کور ٹیم کا حصہ تھے جس نے شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف آپریشن کی نگرانی کی اور کواڈریلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ میں بھی کام کرتے رہے۔ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل اس گروپ نے ہی بین الافغان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
اس کے علاوہ ساحر شمشاد مرزا، سرتاج عزیز کی زیر قیادت گلگت بلتستان میں اصلاحات کے لئے بننے والی کمیٹی کا بھی حصہ تھے۔ لیفٹننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں چیف آف جنرل سٹاف تعینات کیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ فوج میں عملی طور پر چیف آف آرمی سٹاف کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت بن گئے۔ اس حیثیت میں وہ خارجہ امور اور قومی سلامتی سے متعلق اہم فیصلہ سازی میں شامل رہے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کے دور میں ہی یہ روایت پڑی تھی کہ آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تعیناتی ایک ہی روز کی جائے۔ 6 افسران کو نامزد کیا جاتا ہے جن میں سے ایک آرمی چیف اور ایک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات ہوتا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا آغاز 29 نومبر سے جب کہ CJCSC کی ٹرم 28 نومبر سے شروع ہو جاتی ہے۔
27 نومبر کو ریٹائرمنٹ کی صورت میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کے CJCSC تعینات ہونے کے بھی امکانات ہیں اور باقی 5 میں سے کوئی آرمی چیف بن سکے گا۔ اگر عاصم منیر کو آرمی چیف بنانا مقصود تھا تو اس صورت میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو چند دن قبل ریٹائرمنٹ دے دی جاتی۔ ایک آپشن یہ بھی تھا کہ بطور لیفٹننٹ جنرل ان کو توسیع دی جاتی اور پھر آرمی چیف تعینات کیا جاتا۔ ایک آپشن میں انہیں وائس چیف مقرر کر کے آرمی چیف بنانے کا راستہ ہموار کیا جاتا۔ یہ نواز شریف کو دی جانے والی آپشن نمبر 4 تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک 4 سٹار جنرل وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر لیں۔ اس صورت میں آپ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مقررہ جتنی بھی مدت کے لئے توسیع دیں اس میں یہ 4 سٹار جنرل بطور وائس چیف کام کرے اور ملک میں استحکام لانے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو ریٹائرمنٹ دے دی جائے۔ جیسے ہی وہ ریٹائر ہوں گے، نائب چیف کی آرمی چیف کے طور پر تعیناتی کر دی جائے۔
اب زیر غور آپشنز میں سے نواز شریف نے وائس چیف والی آپشن قبول کر لی لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع نہیں دی جا رہی اور وہ جاتے ہوئے اپنی کمان نئے آرمی چیف کے حوالے کر کے جائیں گے۔ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کو وائس چیف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر اگلے آرمی چیف ہوں گے لیکن انہیں پہلے وائس چیف مقرر کیا جائے گا۔ اس طرح 4 سٹار جنرل بنتے ہی ان کی مدت ملازمت 3 سال مزید بڑھ جائے گی۔ جیسے ہی 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہوں گے، جنرل عاصم منیر وائس چیف سے آرمی چیف بن جائیں گے۔ جب کہ CJCSC لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد کو تعینات کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ دونوں کو 4 سٹار جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی جائے گی۔