اقبال نے کہا تھا، ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ یہ درست ہے کہ آج جن حالات میں پاکستان گھرا ہوا ہے، اس سرنگ کے دوسرے سرے پر کوئی روشنی کا سراغ دکھائی نہیں دیتا، لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ انسان اپنی بساط کے مطابق ہی حالات کو جانچنے کی اہلیت رکھ سکتا ہے۔ کوئی ایک واقعہ، کوئی ایک حادثہ ملک کی تقدیر کو کیسے بدل دے کون جانتا ہے؟ 1947 میں جس وقت پاکستان وجود میں آیا، ہمیں دشمنوں اور مشکلوں نے یوں گھیر رکھا تھا کل کی خبر نہ تھی۔ اسی کیفیت کو دیکھتے ہوئے تو کانگریسی رہنما کہا کرتے تھے کہ پاکستان چھ مہینے میں واپس ہندوستان کے ساتھ آ ملے گا۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کے الفاظ میں پاکستان بنایا ہی ایسے گیا تھا کہ یہ ہمیشہ قرضوں کے لئے محتاج رہے۔ لیکن ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اس ملک نے چند ایسے ہیرے پیدا کیے ہیں کہ جنہوں نے اس ملک کو دنیا بھر میں عزت بخشی ہے۔ ان میں سائنسدان بھی ہیں، سیاستدان بھی، لکھاری بھی اور گلوکار بھی۔
آج وطنِ عزیز کی آزادی کی 73ویں سالگرہ کے موقع پر اس 14 اگست کو آئیے، ان 14 عظیم ہیروں کی قدر کرتے ہیں جو پاکستان کی پہچان بنے۔
فیض احمد فیض
فیض احمد فیض 1911 میں صوبہ پنجاب کے شہر نارووال میں پیدا ہوئے۔ فیض اردو زبان کے عظیم ترین شعرا میں سے ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مارکسسٹ سیاسی ورکر بھی تھے جنہوں نے پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں نام اور احترام کمایا۔ 1952 سے 1955 تک راولپنڈی سازش کیس میں جیل یاترا کرنے والے فیض نے زندگی کے کئی مہ و سال آمرانہ حکومتوں کو للکارتے، اور ان کے ہاتھوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے گزارے۔ ان کی نظموں کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں 1962 میں سوویت روس کی جانب سے Lenin Peace Prize دیا گیا۔ یہ انعام سوویت یونین اور اس کے عالمی حلقہ اثر میں وہی اہمیت رکھتا تھا جو معاشی خلیج کی دوسری جانب نوبیل پرائز رکھتا تھا، اور آج بھی رکھتا ہے۔ فیض احمد فیض کو 1984 میں نوبیل امن انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا، لیکن اس نامزدگی کی خبر سننے کے چند ہی گھنٹے کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
فیض کی سیاست اور ان کی شاعری نظریاتی تھی۔ وہ سرحدوں میں نہیں بلکہ ایک حقیقی مارکسسٹ کی حیثیت میں اشتراک کی سیاست میں یقین رکھنے والے شاعر تھے۔ ان کا ایک شاہکار 1965 کی جنگ کے چند روز بعد لکھی گئی ان کی نظم ’سپاہی کا مرثیہ‘ ان کی اس سوچ کا ایک انتہائی خوبصورت مظہر ہے جس میں انہوں نے محض سپاہی کا مرثیہ لکھا ہے، کسی پاکستانی یا ہندوستانی سپاہی کا مرثیہ نہیں۔ اس مرثیے کو پڑھنے والا یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ نظم پاکستانی سپاہیوں کے لئے لکھی گئی ہے یا ہندوستانی۔ اپنے لعل تو سرحد کی دونوں جانب بسنے والی ماؤں نے ہی کھوئے تھے۔
فاطمہ جناح
تحریکِ پاکستان میں قائد اعظم کے شانہ بشانہ لڑنے والی ان کی بہن فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی کے وفات پانے کے بعد کئی سال تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔ اس دوران وہ ریاست کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بھی بنیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بھائی کی legacy کو برباد ہوتے بھی دیکھتی رہیں۔ ان کو ریڈیو پر سنسر کیا جاتا رہا، ان کے بھائی پر لکھی کتاب میں سے کئی اسباق غائب کیے جاتے رہے لیکن قدرت نے شاید ان کی آخری جنگ ان کو ایک فوجی آمر کے خلاف لڑوا کر ان کی سیاسی جدوجہد کو امر کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ 1964 میں صدارتی انتخابات کا وقت آیا تو تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کو اپنا مشترکہ صدارتی امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا۔ تمام تر ریاستی مشینری کے خلاف لڑ جانے والی فاطمہ جناح نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہر جگہ بڑے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ وہ جہاں کھڑی ہو جاتیں، وہیں جلسہ شروع ہو جاتا۔ ایوب خان regime ان سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگانے لگی۔ بالآخر electoral college کو خرید کر انہیں شکست تو دے دی گئی لیکن جو شعور وہ عوام کو دے گئی تھیں، اسے چند ماہ بعد ان کے انتقال کے باوجود دبایا نہ جا سکا اور 1965 کی جنگ تاشقند میں ہارنے کے بعد ایوب خان کے خلاف عوامی غم و غصے کا وہ سیلاب آیا جو اس کی فوجی آمریت کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔
حسین شہید سہروردی
قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ سپاہی پاکستان کے مقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ سہروردی ہی وہ کرشماتی لیڈر تھے جنہوں نے 1945-46 کے انتخابات میں بنگال میں مسلم لیگ کی فتح کو یقینی بنا کر پاکستان بننے کی راہ ہموار کی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود سہروردی مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان خود کو بجا طور پر پل کہا کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اس ہیرے کی بھی قدر نہ کی۔ ستمبر 1956 میں پاکستان کے پانچویں وزیر اعظم بننے والے حسین شہید سہروردی کو 1958 میں ایبڈو کر کے ایوب خان آمریت نے سیاست کے کھیل سے باہر کر دیا۔ 1960 میں یہ بیروت چلے گئے جہاں چند سال بعد ان کی مشکوک انداز میں وفات ہو گئی۔
اقبال احمد
1933 میں بہار میں پیدا ہونے والے اقبال احمد ایک مایہ ناز محقق، استاد اور انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے پاکستان کے عظیم ترین سپوتوں میں سے ایک ہیں۔ امریکہ کی ممتاز یونیورسٹیز میں پڑھانے والے اقبال احمد نے اپنی زندگی کے بہترین سال دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو دیے۔ ان تحریکوں کے لئے اپنی کاوشوں کو انہوں نے صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہیں رکھا، انہوں نے ان کے لئے لکھ کر نہ صرف ان کے لئے عوامی قبولیت پیدا کی بلکہ وہ خود نائیجیریا کی جنگ آزادی میں جا کر لڑے۔ وہ زندگی بھر نوآبادیاتی نظام کے خلاف جنگ لڑتے رہے اور ان کے قریبی ساتھیوں میں نؤم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے مایہ ناز محققین کے نام شامل ہیں۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Culture and Imperialism کو اقبال احمد کے نام کیا ہے۔ فلسطین کے لئے ان کی طاقتور آواز نے ان کو بھی تنہا کر دیا کیونکہ 1960 اور 70 کی دہائی میں امریکی اکیڈیمیا میں فلسطین کے لئے بہت کم لوگ آواز اٹھایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال احمد کو کارنل یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔ ویتنام جنگ کے خلاف ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث 1971 میں ان پر Harrisburg Seven مقدمے میں ملوث ہونے کا الزام لگا جس کے مطابق اقبال احمد نے امریکی صدر کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم، ان کو 1972 میں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ اگلے چند برس ہالینڈ اور امریکہ میں پڑھانے کے بعد وہ 1990 میں پاکستان واپس آ گئے جہاں انہیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے خلدونیہ یونیورسٹی بنانے کے لئے زمین کا وسیع رقبہ تو فراہم کر دیا لیکن یہ یونیورسٹی ریاسی بیانیے کو ترویج دینے والی ایک درسگاہ تو ہو نہیں سکتی تھی۔ لہٰذا یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اقبال احمد 1999 میں 65 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ڈاکٹر عبدالسلام
پاکستان نے سائنس کی دنیا میں ایک ہی بڑا نام پیدا کیا ہے۔ اور یہ نام ڈاکٹر عبدالسلام کا ہے۔ 1979 میں فزکس میں نوبیل انعام جیتنے والے ڈاکٹر عبدالسلام نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ سوئٹزرلیند میں موجود CERN کے ادارے کے وہ بانیوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے خصوصی طور پر پاکستانی Physicists کے لئے یہاں خصوصی مراعات حاصل کیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی مذہبی وابستگی احمدیت سے تھی اور پاکستان میں انہیں اسی باعث وہ پذیرائی کبھی نہ مل سکی جو ان کا حق تھی۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسے مایہ ناز سائنسدان کو محض اس کے مذہبی رجحانات کے باعث ولن بنا کر پیش کر کے ہم نے مستقبل کے کئی عبدالسلاموں کو ممتاز قادریوں میں تبدیل کر دیا۔
نصرت فتح علی خان
نصرت فتح علی خان قوالی کے فن کا وہ مہان نام ہیں کہ اگر قبل از اسلام ہندوستان میں پیدا ہوئے ہوتے تو یقیناً کسی دیوتا کا درجہ پاتے۔ نصرت کی قوالیوں نے پاکستان کو ایک ایسا امیج بخشا کہ جو دنیا بھر میں ہماری پہچان بنا۔ Eddie Vedder، Michael Brook، Peter Gabriel اور اے آر رحمان جیسے عالمی سطح پر مانے جانے والے موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے اور انہیں ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے نصرت فتح علی خان نے دم مست قلندر کو ایک الگ ہی پہچان عطا کر دی۔ انہوں نے بھارتی فلموں کے میوزک بھی ترتیب دیے۔ Jeff Buckley نے انہیں ’میرا Elvis‘ قرار دیا تو جوان اوسبورن نے اپنی موسیقی پر ایک گہرا اثر چھوڑنے والے شخصیت۔ ان کی تعریفوں کے پل تو کتنوں نے ہی باندھے لیکن 2015 میں گوگل نے ان کے لئے ایک ڈوڈل بناتے ہوئے ان کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ ان کی قوالی نے دنیا کے کانوں کو تصوف کی آواز کے لئے کھول دیا۔ یہ انہی کی مایہ ناز آواز تھی جس نے دنیا کو ’دنیا کی موسیقی‘ سے روشناس کروایا۔
بینظیر بھٹو
رضیہ سلطانہ کے بعد کسی بھی مسلمان ریاست کی پہلی خاتون سربراہ بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کی کم عمر ترین وزیر اعظم ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے ضیا دور میں باپ کی جدائی، قید و بند کی صعوبتوں اور جلا وطنی کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی چیرہ دستیوں کو برداشت کیا۔ 1988 میں انتخابات جیتی تو دودھ میں مینگنیاں ڈال کر دینے کے مصداق انہیں پنجاب کے بغیر وزارتِ عظمیٰ دی گئی۔ اور محض 20 ماہ کے بعد انہیں نکال دیا گیا۔ 1993 میں ملک پابندیوں کا شکار ہونے لگا تو اسٹیبلشمنٹ کو خیال آیا کہ بل کلنٹن اور ہلیری کلنٹن بینظیر بھٹو کو ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک بار پھر انہیں وزارتِ عظمیٰ دے دی گئی لیکن پنجاب نہ دیا گیا۔ 1996 میں انہیں ایک بار پھر اقتدار سے علیحدہ کر کے جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور وطن واپسی پر قتل کر دیا گیا۔ بینظیر بھٹو آج بھی ملک میں جمہوریت پسندوں کے لئے ایک روحانی قوت کا ذریعہ ہیں۔ جمہوریت کے لئے ان کی قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
باچا خان
خان عبدالغفار خان عرف بادشاہ یا باچا خان خیبر پختونخوا میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی تھے۔ عدم تشدد کے اس داعی نے پختونوں کو ان کی قومی شناخت کا احساس دلا کر ان قبائل کو پشتون وحدت کی شناخت دے کر یکجا کیا۔ انگریز کے خلاف یہ خدائی خدمتگار خوب ڈٹ کر لڑے۔ مہاتما گاندھی نے انہیں سرحدی گاندھی کا خطاب دیا اور پشتونوں نے اپنے باچا خان کا لقب دے کر ان کی کاوشوں کو عزت بخشی۔ پاکستان بننے کے وقت باچا خان ہندوستان کے بٹوارے کے حق میں نہیں تھے لیکن بعد ازاں انہوں نے پاکستان کے وجود کو قبول کیا۔ ان کے بیٹے عبدالولی خان کی قیادت میں نیشنل عوامی پارٹی نے پاکستان میں پشتون سیاست کو زندہ رکھا۔ 1948 میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا حلف اٹھانے کے وقت وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ان سے پوچھا کہ پشتونستان سے ان کی کیا مراد ہے تو باچا خان نے جواب دیا کہ یہ پاکستان ہی کا ایک صوبہ ہے جیسے پنجاب، بلوچستان یا سندھ ہیں۔ 1980 میں انہوں نے ایک بھارتی صحافی ہارون صدیقی کو انٹرویو دیتے ہوئے پشتونستان پر بات کی تو کہا کہ اس نام نے پشتونوں کو کبھی بھی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ یہ کبھی حقیقی نعرہ تھا ہی نہیں۔ اس نعرے کو ہمیشہ مختلف افغان حکومتوں نے اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا ہے۔ 27 سال جیل اور نظر بندی میں گزارنے کے بعد جنوری 1988 میں 97 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے افغان سرزمین پر دفن ہونا پسند کیا تاکہ پشتونوں کی ملی یکجہتی کا تصور ان کے بعد بھی زندہ رہے۔
عاصمہ جہانگیر
عاصمہ جہانگیر پاکستان کا وہ نام ہے کہ جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور اس ملک میں انسانی حقوق کی شمع بلند کیے رکھی اور اس کے لئے دنیا بھر میں عزت اور احترام کمایا۔ جنرل یحییٰ کی آمریت کے خلاف مقدمہ لڑا، جنرل ضیا دور میں عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑتی رہیں، جنرل مشرف کے خلاف اے آر ڈی بنانے کا موقع آیا تو یہ عاصمہ جہانگیر ہی تھیں جنہوں نے تمام بڑی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جس کے بطن سے اے آر ڈی پھوٹی۔ کبھی میراتھن ریس کی بحالی کے لئے دوڑیں لگا رہی ہیں، کبھی گمشدہ افراد کا مقدمہ لڑ رہی ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کر بڑے بڑے سورماؤں کو للکار رہی ہیں تو ملاؤں کی لاؤڈ سپیکروں سے ہوئی نفرت انگیز تقریروں کو ایک اکیلی نحیف سی عاصمہ جہانگیر کی پاٹ دار آواز دبا رہی ہے۔ بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے لئے لڑ رہی ہے تو مذہبی اقلیتوں کے لئے آواز اٹھا رہی ہے۔ بھارت گئی تو ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایسی رپورٹ بنا کر لائی کہ بھارت کے سیکولر ازم کی قلعی دنیا بھر میں بیچ چوراہے میں کھول کر رکھ دی۔ اپنی آخری تقریر انہوں نے پشتون تحفظ تحریک کے ایک جلسے میں کی تھی۔ عاصمہ جہانگیر کے جنازے میں مسلمانوں، مسیحیوں، احمدیوں، سکھوں، ہندوؤں، مردوں، عورتوں، خواجہ سراؤں سب نے شرکت کی۔ کسی نے ان کی وفات کے موقع پر ٹوئٹر پر لکھا تھا 50 سال وہ حق کے راستے پر چلتی رہی۔ ایسی راست بازی تو پیغمبروں میں ہوتی ہے۔
نور جہاں
نور جہاں کی عظمت کی گواہی کے لئے ہمیشہ محض 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران گائے گئے ان کے ملی نغمے ہی لائے جاتے ہیں لیکن ان کی عظمت محض جنگ کے ادوار میں قوم اور سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے تک محدود نہ تھی۔ میڈم نے پاکستان میں اس وقت عورتوں کے لئے ہر جگہ سپیس بنائی جب کوئی اس بابت سوچتا بھی نہ تھا۔ انہوں نے دھڑلے سے فیض کی نظمیں گائیں اور انہیں کوئی روک نہ سکتا تھا۔ فیض جیل میں تھے، انہیں ایک کنسرٹ میں فیض کو گانے سے منع کیا گیا لیکن میڈم نے شروعات ہی مجھ سے پہلی سی محبت گا کر کی۔ 1980 کی دہائی میں جب دو قومی نظریے کا بھرپور پرچار جاری تھا، میڈم نور جہاں ساڑھی باندھ کر سٹوڈیو میں گانے گاتیں اور ریاستی بیانیے کو خاطر میں نہ لاتیں۔ انہوں نے برس ہا برس پاکستان کی انڈسٹری پر راج کیا اور آج بھی اپنے گیتوں کی صورت ہمارے درمیان زندہ ہیں۔
شیخ ایاز
شیخ ایاز پاکستان میں سندھی زبان کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک گزرے ہیں۔ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف نے سندھی اور اردو میں متعدد کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ اٹھارھویں صدی کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کو اردو میں ترجمہ کرنے والے شیخ ایاز کو ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ شاہ جو رسالو کا مترجم یہ ترقی پسند شاعر 1997 میں 74 سال کی عمر میں انتقال کر گیا لیکن سندھ کی دھرتی اس کو کبھی بھلا نہیں سکتی۔ 2018 میں ان کے نام پر شیخ ایاز یونیورسٹی بھی قائم کی گئی۔
نواب اکبر بگٹی
بلوچستان سے وفاقِ پاکستان کے حق میں اٹھنے والی سب سے توانا آواز نواب اکبر خان بگٹی کی تھی جنہوں نے 1947 میں بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ نواب اکبر بگٹی پاکستان کے وزیر داخلہ بھی رہے، گورنر بلوچستان بھی رہے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی۔ تاہم، بلوچوں کے حقوق کی آواز اٹھانا انہیں بہت مہنگا پڑ گیا کیونکہ جنرل مشرف نے ان کے خلاف نہ صرف فوجی ایکشن کیا، ان کو قتل کیا بلکہ بعد ازاں ایک محفل میں اس پر انتہائی فخر کا اظہار بھی کیا اور انہیں غدار قرار دیا۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ آئینِ پاکستان کو توڑنے والے، کارگل میں جوانوں کو گاجر مولیوں کی طرح کٹوانے اور کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کے لئے ناقابلِ تسخیر بنا دینے والا شخس اس شخص کو غدار قرار دے کر مار دے کہ جس نے بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ لا کھڑا کیا اور 1973 کے آئین پر بلوچ قیادت کو اکٹھا کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
فہمیدہ ریاض
ایک ایسی شاعرہ جس نے کبھی کسی طاقتور کو اس قابل نہ سمجھا کہ اس کے در پر جا کر اس سے مراعات کی بھیک مانگیں۔ وہ ایک آزاد شاعرہ تھیں، جنہوں نے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں، انتہائی کسمپرسی کا وقت بھی دیکھا، لیکن کبھی دربارِ شاہی کی کاسہ لیسی نہ کی۔ عورت کے نسوانی جذبات پر لکھا تو مردوں کو ’اپنا بھی کوئی عضو ناپو‘ کہہ کر شرم سے پانی پانی بھی کیا، ضیا نے باغی نظمیں لکھنے پر ملک سے نکال دیا تو بے جھجھک کہا کہ ’جو کیا بہت کم تھا، صرف یہ ندامت ہے‘۔ بھارت میں جلا وطنی کے دوران لوگوں کے رویے مسلمانوں کے ساتھ دیکھے تو بول اٹھیں، ’تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی‘۔ غرضیکہ انہوں نے کبھی اپنے قلم کو شاہی جاہ و جلال سے مرعوب ہونا نہیں سکھایا۔
ملالہ یوسفزئی
ملالہ یوسفزئی نے اس وقت طالبان کے خلاف رپورٹنگ کی جب پاک فوج بھی سوات کے لوگوں کو طالبان سے آزاد کروانے وہاں نہیں پہنچی تھی۔ 11 سال کی عمر میں دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے والی اس لڑکی کو طالبان نے 14 سال کی عمر میں نشانہ بنایا۔ گولی کھا کر اپنے چہرے کو بگاڑنا اس نے قبول کر لیا لیکن وطن کا چہرہ جو بگاڑنے آئے تھے وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے اس نے۔ ملالہ یوسفزئی کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ تھا لیکن آج وہ نوبیل امن انعام جیت چکی ہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کر چکی ہیں، بچیوں کی تعلیم کے لئے دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں اور بلاشبہ پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک امید کی کرن ہیں۔