پولیس کو عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے نو آبادیاتی سوچ سے نکلنا ہوگا

کیا 1861سہ پولیس ایکٹ کے تحت چلنے والی پولیس فورس جس نے 1947-1948 میں مہاجر آباد کاریوں اور پاکستان کی آباد یاتی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا تھا ایک مستند اور جدید قانون سے آراستہ نہیں ہونی چاہیے تا کہ جدید دور کے جدید مطالبات اور جرائم پر موثر طریقے سے قابو پا سکے۔ یہ تو شکریہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2001ء کا جس کے تحت پولیس آرڈر 2002ء قیام میں آیا اور تاریخی پنجاب پولیس کچھ تبدیلیوں سے ہمکنار ہوئی۔

جرائم پر قابُو پانا ہماری اہم ترجيحات ميں سے ايک ہونی چاہئے ليکن بدقسمتی سے نا تو ماضی اور نہ ہی موجودہ حکومت نے اس امر ميں کوئ فيصلہ کُن کردار ادا کيا ہے جس کی وجہ سے آۓ دن کوئ نہ کوئ اِن جرائم کا نشانہ بنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کون سی ایسی وجوہات ہیں جو جرائم پر قابو پانے کے آڑے آتی ہیں۔

پولیس فورس کا کام معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنا اور لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں کے ازالے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے جب کہ پولیس فورس کے اندر ہی نا انصافی کا بول بالا ہے جس کی سب سے بڑی مثال پولیس کا سروس سٹرکچر ہے جو کہ صرف رینکرز افسرانِ بالا اور ادنیٰ اور نچلے ما تحتان پہ لاگو ہوتا ہے۔ ایک پولیس کا جوان جب اپنی پرموشن کے لئے 7 سال تک انتظار کر کے پرموشن کے قریب پہنچتا ہے تو حکومت نئے ملازمین بھرتی کر کے اُس کے حق کے ساتھ زیادتی کرتی ہے جو کہ اس جوان کی دل آزاری اور اپنے فرائض بخوبی سر انجام نہ دینے کا باعث بنتی ہے۔ ایک جوان یا سپاہی محکمہ میں سب سے زیادہ محنت کرتا ہے لیکن اُس کی ویلفیئر اور سروس سٹرکچر پر کوئی دھیان نہیں دیتا اور اُس کو ہمیشہ افسران کے غصے اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ یہی دوسرے افسران اور ماتحتان کا حال ہے جس کی وجہ سے وہ کرپشن اور کام نہ کرنے کی عادات اپناتے ہیں کیونکہ ان کے اچھے کام کی وجہ سے ان کی پروموشن اور ویلفیئر کا یقین نہیں ہوتا۔

 

پوری دنیا کے اندر زیادہ تر اداروں میں انسان صرف ایک دِن میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہے لیکن پولیس کے اندر اس نظام کو فروغ دینے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا گیا۔ چاہیے ایک تھانے کا ایس۔ ایچ۔ او ہو یا کوئی اہلکار اس کے ڈیوٹی کے اوقات کا کوئی موثر نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس کے اندر کاہلی اور سُستی عروج پر ہے جس کی وجہ سے سائلین کو تھانہ جات اور دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ رشوت ستانی کو پولیس کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی وجہ پولیس میں چھوٹے اہلکاران اور افسران کے لئے مراعات کی کمی اور ان کی ویلفیئر نہ ہونے کے برابر اور جن حالات اور انفراسٹرکچر میں وہ کام کرتے ہیں اِس کی  ایک اور اہم وجہ ہے۔ پاکستان کو بنے 70 سال سے زیادہ ہو گئے لیکن پویس کے لئے فوج کی طرز پہ نہ تو کسی نے کوئی رہائشی کالونی ان کے بچوں کے لئے سکول، کالج اور نہ ہی ہسپتال بنانے کی کوشش کی تا کہ رشوت ستانی سے نپٹا جا سکے اور فورس کے اندر ایک خود اعتماد ی اور یکجہتی پیدا ہو۔

پولیس کی جرائم پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ پُرانے تفتیشی طریقہ جات اور چھوٹے افسران اور اہلکاران میں ٹریننگ کا فقدان بھی شامل ہے۔ جدید بین الصوبائی پولیس ہم آہنگی اس امر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کے اہلکاران کی ٹریننگ بہت اہم ہے جس کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ جوانوں کی ٹریننگ کے ماحول اور ان کی بھرتی کے نظام سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ شاید اس کو زیادہ اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا حالانکہ عوام کے ساتھ سب سے زیادہ اُسی کا رابطہ ہوتا ہے۔ اس لئے جوان کی بھرتی کے لئے تعلیم کم از کم بی۔ اے کی جائے اس کو ایک بہتر اور یقینی سروس سٹرکچر فراہم کیا جائے تا کہ ہر کوئی خوشی سے پولیس میں بھرتی ہو اور اہلکاران کو نیچے سے پرموٹ کر کے اوپر لایا نہ کہ ڈائریکٹ بھرتیوں سے نا تجربہ کار لوگوں کو تجربہ کار لوگوں کے سر پر بٹھایا جائے اور نہ ہی کسی کا حق کھایا جا سکے۔

ماڈرن آلات اور جدید ہتھیاروں سے کبھی بھی جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک پولیس کے اندر جو ورک فورس یعنی اہلکاران کو جدید ٹریننگ اور شفافیت کے تحت بھرتی نہیں کیا جاتا۔ سیاست دانوں کی پولیس میں مداخلت نے اس فورس کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مداخلت کو روکنے کے لئے حکومت وقت کو موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے موجودہ حکومت کسی حد تک اس پہ قابو پانے میں کامیاب ہے لیکن ابھی بھی اس امر میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

انگریز پاکستان کو بر صغیر سے علیحدہ کر کے خود تو چلا گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کے اصول ادھر ہی چھوڑ گیا جس کی سب سے بڑی مثال سی ایس ایس کے ذریعے ٹرائریکٹ بھرتیوں کی ہے۔ جس میں ایک ایسی کلاس تشکیل دی گئی ہے۔ جو خود کو سب سے افضل سمجھتی ہے اور اس وجہ سے خاص طور پر پولیس کے اندر دو کلاسز کام کرتی ہیں جن میں ایک رینکر حضرات جو کہ اپنی ساری زندگی پولیس میں گزارتے ہیں اور زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہونے کے بعد ان کے اوپر ایک ڈاکٹر صاحب جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے آتے ہیں ان کے سر پر بیٹھا دیئے جاتے ہیں۔

جس سے تجربہ کاری جیسے اہم عنصر جو کہ اس عمل میں نہایت اہم سمجھا جاتا ہے کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اور سب انٹرنیشنل ٹریننگ اور مراعات کے دریا ان پر کھول دیے جاتے ہیں جو کہ ازخد ايک احساس ادنیٰ پیدا کرتا ہے۔ اور یہ عمل پوری دنیا میں صرف پاکستان اور ہندوستان میں عمل پیرا ہے۔ اور ہمارے حالات آپ کے سامنے ہیں اگر یہ طریقہ اتنا فائدہ مند ہوتا تو 70 سال میں پاکستان کے حالات کیوں نہیں بدلے؟ جب ساری مراعات عیش و عشرت صرف افسران بالا کے لئے ہے تو پھر جرائم کی روک تھام کا ذمہ دار صرف چھوٹے افسران اور اہلکاران کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے کہ کوئی اور طالب علم پولیس کے ہاتھوں قتل نہ ہو اور کوئی اور زینب جیسی بچی بے آبرو نہ ہو۔

 

مصنف پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں۔ جنہوں نے لندن سے ایل ایل ایم کیا ہے۔