پاکستانی ہوابازوں کا تشخص خراب ہوا تو خیر ہے؟ کیسے شہزاد چودھری صاحب؟

پاکستانی ہوابازوں کا تشخص خراب ہوا تو خیر ہے؟ کیسے شہزاد چودھری صاحب؟
پاکستان میں ابھی ہم کسی ایک ادارے میں پائی جانے والی کرپشن اور بے ضابطگیوں کا رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ اسی دوران کسی اور ادارے کا کٹا کھل جاتا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ ہوائی حادثے کے بعد وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کا بیان منظر عام پر آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ %30 سے زیادہ پاکستانی کمرشل پروازوں کے پائلٹ جعلی لائسنسوں کے حامل ہیں جو کہ جہاز اڑانے کے اہل نہیں ہیں۔ وزیر صاحب کا مزید کہنا تھا کہ 262 پائلٹس نے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا اور ان کا جہاز اڑانے کا پہلے سےکوئی تجربہ بھی نہیں تھا۔

وزیر موصوف کے اس بیان کے بعد پاکستان کی ایک بار پھر جگ ہنسائی ہوئی اور برطانیہ، امریکہ سمیت دیگر کئی ممالک، یہاں تک کہ ایتھوپیا نے بھی پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن پر پابندی لگا دی۔

پی آئی اے نے پاکستان میں ازخود بھی مشکوک لائسنسوں کے حامل پائلٹس کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ مندرجہ بالا باتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر ہوا بازی کی نیت ہو سکتا ہے کہ ٹھیک ہو اور انہوں نے مشکوک لائسنسوں کے حامل پاکستانی پائلٹس کی جانچ پڑتال کے لئے اور ایئر لائن کی بہتری کے لئے یہ تمام بیانات دیے ہوں اور مزید اقدامات کرنے کا عندیہ دیا ہو مگر میرے خیال میں تو ان کا طریقہ کار غلط ہے۔

سرور خان صاحب نے کوئی بھی تحقیق مکمل کیے بغیر اسمبلی کے فلور پر واویلا مچا دیا کہ ہمارے ہاں ہر تین میں سے ایک کمرشل پائلٹ کا لائسنس مشکوک یا جعلی ہے۔ ان کے اس واویلے کی آواز اسمبلی کے اندر رہنے کے بجائے پوری دنیا میں گونجی اور جو پاکستان کا بچا کھچا تشخص دیانتداری کے حوالے سے دنیا میں موجود تھا وہ بھی دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔

وزیر صاحب کے اس بیان کی وجہ سے جہاں ملک کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی اور جگ ہنسائی ہوئی وہاں پاکستان کی بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگنے کی وجہ سے اصلی لائسنسوں والے پائلٹس کی بدنامی بھی ہوئی اور ان کے روزگار پر بھی لات پڑی۔

ابھی مجھے عمران خان صاحب کا اقتدار میں آنے سے پہلے والا ایک بیان یاد آ گیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ان کے دور حکومت میں بیرون ملک سے لوگ پاکستان میں نوکری کرنے آئیں گے۔ مگر ان کے ہی دور حکومت میں نوکری لینے تو خیر کس نےآنا ہے،الٹا نوکری کرتے ہوئے افراد بھی نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔

ریٹائرڈ وائس ائیر فورس مارشل شہزاد چوہدری کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ پائلٹس کو نوکری سے برخاست کرنے کا مقصد پاکستانی فضائی انڈسٹری کا تشخص  بہتر کرنا ہے۔ یہ ادارہ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے اس لئے اس میں اصلاحات کرنا ضروری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وقتی طور پر پاکستان کا تشخص خراب ہونا، حادثات میں لوگوں کی جانیں کھونے سے بہتر ہے۔

بہرحال بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ جو اصلی لائسنس کے حامل پائلٹس ہیں ان کا کیا قصور تھا جو ان کو بھی ذلیل کیا گیا اور کروایا گیا؟

اس کے علاوہ شہزاد چودھری صاحب کی یہ بات بھی غلط ہے کہ ادارے میں اصلاحات کے لئے پاکستان کا تشخص اور وقار بین الاقوامی سطح پر خراب ہو بھی جائے تو خیر ہے۔ محترم، اللہ پاک نے عقل سلیم سے انسان کو اسی لئے نوازا ہے کہ اسے بوقت ضرورت استعمال کیا جائے۔

اس مسئلے کو وزیر اعظم پاکستان کو خود سنجیدگی سے ایکشن لے کر حل کرنا چاہیے اور اپنی حکومت کے متعلقہ افراد کو پہلے تولو پھر بولو کی پالیسی پر عملدرآمد کروانے کے لئے ریفریشر کورسز کروانے چاہئیں۔ متعلقہ متاثرہ پائلٹس جو کہ اصل لائسنس رکھنے کے باوجود رگڑے میں آ گئے ہیں ان کو مناسب ہرجانہ ادا کرنا چاہیے اور یہ ہرجانہ وزیر ہوا بازی کی جیب سے ادا ہونا چاہیے، کیونکہ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے کلمات سے کتنے خاندان متاثر ہوئے ہیں۔

جو مشکوک یا جعلی لائسنس کے حامل افراد ہیں ان کو جس نے لائسنس جاری کیے ان سمیت تمام متعلقہ افراد کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دینا ہوگی اور عبرت کا نشان بنانا ہوگا تاکہ عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کو اپنے انجام کا پتہ چلے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اپنے حکومت میں آنے سے پہلے کےبیانات کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کا مثبت تشخص بحال کرتے ہیں یا پھر وہ بھی کرسی پر بیٹھ کر اکثریتی سابقہ حکمرانوں کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں اور ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔