پشاور محلہ جوگن شاہ میں سکھ کمیونٹی سکول کو سکیورٹی خدشات
خیبر پختونخوا میں سکھوں کا واحد سکول پشاور کے محلہ جوگن شاہ میں واقع ہے۔ سکھ کمیونٹی نے پولیس کو سکیورٹی سے متعلق تحفظات کے حوالے سے خط بھی لکھا ہے جس کے مطابق پشاور میں بسنے والی کمیونٹی کے نمائندوں نے محلہ جوگن شاہ میں واقع سکھوں کے واحد سکول کیلئے پولیس اہلکار فراہم کرنے اور سکیورٹی مہیا کرنے کے حوالے سے درخواست کی ہے۔ اس سکول میں 370 کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں جس کے تمام تر اخراجات سکھ کمیونٹی خود برداشت کرتی ہے۔ اخراجات کے بارے میں بھی صوبائی حکومت کو کئی دفعہ خبرادار کیا جا چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت کی جانب اس پر غور نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب پچھلے ایک سال کے دوران 10 کے قریب سکھ سٹریٹ کرائم کے بھی شکار ہو چکے ہیں۔ پشاور پولیس کو سکیورٹی کے متعلق لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سکھ کمیونٹی کے سکول کیلئے اہلکار تعینات کیے جائیں کیونکہ ان کو کئی دفعہ دھمکیاں بھی موصول ہو چکی ہیں جس کے بعد وہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ سکھ کمیونٹی یہ بھی کہا کہ اگر انہیں سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی تو صوبائی اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا جائیگا کیونکہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا عام مسلمان اکثریت آبادی کا۔
4 ارب 29 کروڑ کی گندم پر 13 ارب 21 کروڑ کا مارک اپ، تحقیقات کا حکم
خیبر پختونخوا حکومت نے مذکورہ گندم ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے 2004، 2008 اور 2009 میں خریدی تھی
ٹریدنگ کارپوریشن آف پاکستان نے گندم کی مد میں محکمہ خوراک خیبر پختونخوا سے 17 ارب روپے کے بقایاجات مانگ لیے ہیں۔ ادائیگی نہ ہونے کے باعث 4 سال میں مارک اپ 4 ارب روپے پر 13 ارب روپے ہو گیا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے اس سلسلسے میں تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اس بات کی تحقیقات ہوگی کہ صوبے کو اتنا نقصان کیوں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن سے 2004-5 میں 29 کروڑ روپے کی خریداری کی، 2007-8 میں 83 کروڑ اور 2008-9 میں 3 ارب روپے کی خریداری کی۔ اس طرح 4 سال میں چار ارب 29 کروڑ روپے کی خریداری کی گئی لیکن صوبائی حکومت نے اس دوران کوئی ادائیگی نہیں کی اور 4 سال میں 4 ارب 29 کروڑ روپے پر مارک اپ بڑھ کر 13 ارب 21 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ پی ٹی سی نے محکمہ خوراک خیبرپختونخوا کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں فوری طور 17 ارب 51 کروڑ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مراسلے کے مطابق ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں مارک اپ مزید بڑھ سکتا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ یہ سابقہ حکومتوں کے کارنامے ہیں، صوبے کو اتنی رقم میں پھنسا دیا گیا۔
پشاور: لازمی مضمون پشتو پڑھائے بغیر بچوں کو پاس کیے جانے کا انکشاف
صوبائی دارالحکومت پشاور کے نصف سے زائد سکولوں میں پشتو مضمون لازمی ہونے کے باوجود نہیں پڑھایا جاتا اور نہ ہی امتحانات میں پرچہ شامل ہوتا ہے۔ اکثر نتائج میں تمام بچوں کو اس میں پاس ظاہر کر کے حکومت اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ ڈسڑکٹ ایجوکیشن افسر پشاور کے مطابق پشتو مضمون اور زبان ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں پرائمری سے میٹرک تک پشتو زبان بطور لازمی مضمون نصاب میں شامل ہے، البتہ ہزارہ اور ڈی آئی خان بیلٹ میں پشتو مضمون اختیاری قرار دیا گیا ہے۔ مگر پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اورصوبائی سمیت تمام اضلاع جہاں زیادہ تر پشتو بولی جاتی ہے وہاں پشتو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ پرائمری اور مڈل سکولوں کے اساتذہ اور ہیڈماسٹرز کا کہنا ہے کہ جب بچے پڑھتے ہیں تو والدین کا اس مضمون میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتا تو اس لئے زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو انگریزی سیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں جس کی وجہ سے بھی مسئلہ درپیش ہے۔
گرجا گھروں، تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ
ایس پی سکیورٹی کو پشاور میں قائم گرجا گھروں اور دوسری مذہبی جگہوں کی سکورٹی کا ازسرنو جائزہ لینے کا حکم، انتظامات مزید بہتر بنانے کی ہدایت
پشاور پولیس نے اقلیتی برادری کو درپیش مسائل اور سکیورٹی خدشات کے پیش نذر گرجا گھروں اور تعلیمی اداروں کی سکیورٹی کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کیلئے ایس پی سکیورٹی کی سربراہی میں خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ اس ضمن میں جمعرات کے روز سربراہ چرچ آف پاکستان بشپ ہمفری سرفراز پیٹر نے چیف کیپٹل پولیس آفیسر پشار قاضی جمیل الرحمان سے ملک سعد شہید پولیس لائن میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران ای پی سکیورٹی عنایت علی شاہ اور ایس پی ہیڈ کوارٹرز عبدالسلام خالد بھی موجود تھے۔ اس موقع پر سی سی پی او قاضی جمیل الرحمان نے کہا کہ پشاور پولیس بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کی رو سے مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا اور پشاور پولیس تمام تر وسائل اقلیتوں کے تحفظ کیلئے بروئے کار لائیگی۔
فاٹا میں عجیب قانون نافذ، سمجھ نہیں آ رہی، حکومت کیا چاہتی ہے، پشاور ہائیکورٹ
آزادی سے متعلق امور پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، حالات اس طرح چلتے رہے تو جیلیں لوگوں سے بھر جائیں گی، جسٹس قیصر رشید
پشاو ہائیکورٹ کے جسٹس قیصر رشید نے کہا ہے کہ اس وقت سابق فاٹا میں عجیب قانون نافذ کیا گیا ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔ ہم کسی کی آزادی سے متعلق امور آنکھیں بند نہیں کر سکتے کیونکہ اگر اسی طرح حالات چلتے رہے تو جیلیں لوگوں سے بھر جائیں گی اور پھر لوگ ان جیلوں میں سڑتے ہیں گے۔ جسٹس قلندر علی نے ریمارکس دیئے کہ ریاست سوچے کہ جب قانون نہیں ہوگا تو اس کا فائدہ ملزم کو ہوگا یا ریاست کو۔ ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ فاضل بنچ نے یہ ریمارکس گل خان نامی درخواست گزار کی رٹ کی سماعت کے دوران دیئے۔ دوران سماعت ان کے وکیل ولی خان آفریدی نے جب کام شروع کیا تو اس کا مؤکل کراچی میں مزدوری کیلئے گیا تھا۔ باجوڑ ایجنسی س تعلق رکھنے والے گل خان نے جب کام شروع کیا تو وہاں پر اسے حراست میں لے لیا گیا۔ بعد میں اے پی اے خار باجوڑ نے13 اکتوبر 2017 کو ایجنسیوں کی سفارشات کی روشنی میں اسے ایف سی آر کے تحت 28 سال قید کی سزا سنا دی جسے 25 جنوری 2018 کو کمشنر مالاکنڈ ڈویژن نے کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم اسے کے ساتھ یہ بھی فیصلے میں لکھ دیا کہ دوبارہ ٹرائل تک ملزم جیل سے باہر نہیں جا سکتا۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سابق فاٹا میں اب کوئی قانون نافذ نہیں کیونکہ انٹیرم ریگولیشن پشاور ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے۔ عدالت نے وہاں موجود ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر شاہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کفایت اللہ کو طلب کرتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کا مؤقف عدالت میں پیش کریں کیونکہ بظاہر اب وہاں پر کوئی دوسرا فورم نہیں اور سماعت ملتوی کر دی۔