Get Alerts

نیب میں پیشی کے دوران بشریٰ بی بی سے کیے گئے سوالات 

بشریٰ بی بی کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے میڈیا کو بتایا کہ نیب کی جانب سے بشریٰ بی بی کو 11 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے اور سوالوں کے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

نیب میں پیشی کے دوران بشریٰ بی بی سے کیے گئے سوالات 

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پیر کے روز190  ملین پاونڈز کیس میں احتساب بیورو کے سامنے پیش ہوئیں۔ پیشی کے دوران ان کے القادر یونیورسٹی اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے تعلقات کے بارے میں تحقیقات کی گئیں۔

اس موقع پر انہیں تفصیلی جوابات دینے کے لیے ایک سوالنامہ بھی جاری کیا گیا۔

بشری بی بی کو اس سوالنامے میں شامل 11 سوالوں کے جوابات دو ہفتوں میں دینے کی ہدایات کی گئی ہیں۔

سوالنامے میں دیے گیے سوالات میں بشری بی بی سے پوچھا گیا ہے کہ  آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ اسلامی تدریس کا کورس بھی کیا؟ 

القادر ٹرسٹ پراجیکٹ بنانے کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ ٹرسٹی ہونے کے ساتھ بطور استاد بھی کوئی ذمہ داری ادا کر رہی ہیں؟

کیا آپ بطور ٹرسٹی یا بطور استاد یونیورسٹی سے کسی قسم کی تنخواہ یا مراعات لیتی ہیں؟ القادر یونیورسٹی بنانے کا خیال کس کا تھا اور اس کے لیے جگہ کا تعین کس نے کیا؟

آپ بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی میں کیا ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں؟ اس ٹرسٹ کو بنانے کے لیے ملک ریاض حسین اور بحریہ ٹاون کا کیا کردار ہے؟

فرح شہزادی سے آپ کا تعلق کیا ہے؟ کیا آپ ان کے مالی معاملات اور کردار کے بارے میں مطمئن ہیں؟ کیا آپ کو علم ہے کہ فرح شہزادی ( گوگی) نے ہاؤسنگ سوسائٹی سے اسلام آباد میں 240 کنال زمین حاصل کی؟ 

کیا آپ فرح شہزادی کے مالی معاملات و کردار سے مطمئن ہیں؟  ملک ریاض نے القادر ٹرسٹ میں خود دلچسپی دکھائی یا آپ نے رابطہ کیا؟ 

نیب نے القادر ٹرسٹ کو ملنے والے عطیات کا ریکارڈ بھی طلب کیا ہے۔

دوسری جانب بشریٰ بی بی کے وکیل نعیم پنجوتھہ نے میڈیا کو بتایا کہ نیب کی جانب سے بشریٰ بی بی کو 11 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ فراہم کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق بشریٰ بی بی کو 190 ملین پاؤنڈ سکینڈل کیس میں 11 سوالوں کے جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 جبکہ اس کیس میں بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل ازگرفتاری 15 نومبر تک ہے۔

وکیل نے مزید بتایا کہ بشریٰ بی بی سے الگ کمرے میں تحقیقات کی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ نیب نے القادر کیس میں عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے رواں برس 9مئی کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے جلاو گھیراؤ کے واقعات ہوئے۔

اس دوران فوجی تنصیبات سمیت سرکاری اور نجی املاک کو جلایا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔

القادر کیس میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نیب حکام کے سامنے اپنا بیان رواں برس جولائی میں ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ 

یہ کیس بنیادی طور پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے واپس بھیجی گئی رقم کے غیرقانونی تصفیہ اور القادر یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے زمین کے غیر قانونی حصول سے متعلق ہے۔

جبکہ توشہ خانہ نیب کیس میں نیب نے رواں برس 17 فروری کو عمران خان اور بشریٰ بی بی کو تحائف کے حصول پر نوٹسز جاری کیے تھے اور عمران خان سے مختلف شخصیات کی جانب سے ملنے والی گھڑیوں اور موبائل فون سمیت تحائف کی تفصیلات مانگی گئیں تھیں۔