ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلز پارٹی میں بھی مائنس ون فارمولا لاگو ہونے لگا ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد کو ان کی پاکستان مخالف تقریر نے پاکستان کی سیاست سے مائنس کیا اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے فارغ ہو گئے مگر وہ ملکی سیاست سے مائنس نہیں ہوئے۔
سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس مرتبہ مائنس ون فارمولے کا اطلاق سابق صدر آصف علی زرداری پر ہو سکتا ہے۔ سابق صدر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ سیاست سے ریٹائر ہو گئے ہیں مگر درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور بلاول کو چلانے والے آصف زرداری ہی ہیں. آصف علی زرداری میں صورت حال کو بھانپتے ہوئے درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے.
اگر زرداری صاحب سیاست سے دوری اختیار کر لیں تو یہ ان کے لئے مفید ثابت ہو یا نہ ہو مگر پیپلز پارٹی کے لیے ضرور ایک بہتر فیصلہ ہو گا کیوں کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے متعدد رہنما پارٹی سے نالاں ہیں اور ہزاروں کارکنان بھی گھروں میں ناراض بیٹھے ہیں۔
ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) کو مائنس ون فارمولے کے تحت ضرور نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی کو مائنس ون فارمولے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پیپلز پارٹی کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہو گا بشرطیکہ بلاول بھٹو زرداری اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھائیں۔
یہ بات تو سب جانتے ہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی طرح پیپلز پارٹی میں بھی دو گروپ ہیں اور اکثر دونوں گروپوں کا ٹکراؤ بھی ہوتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ 2014 میں الطاف حسین کے خلاف تقریر کرنے پر سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو سیاسی نابالغ قرار دیا تھا جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری ناراض ہو کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے اندر بلاول مخالف گروپ نے بلاول ہاؤس میں موجود بلاول بھٹو زرداری کے تمام قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں کے بلاول ہاؤس داخلے پر پابندی عائد کروا دی تھی جن میں بلاول بھٹو زرداری کے چیف آف سٹاف حشام ریاض شیخ بھی شامل تھے۔ میری بلاول بھٹو زرداری کے قریبی ساتھی سے بات ہوئی تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ بلاول اکثر پارٹی میں موجود اپنے مخالف گروپ کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔
سیاست واقعتاً بہت بے رحم ہوتی ہے۔ اگر ماضی پہ نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابق چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو بھی سیاسی میدان میں آئے اور میر مرتضی بھٹو آخری سانس تک اپنی سگی بہن کے سیاسی مخالف رہے۔
مرتضی بھٹو اپنی بہن کی مخالفت میں آخری حد تک چلے گئے تھے۔ اس بات کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے اور کچھ بھی ناممکن نہیں. پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال بھی زیادہ مختلف نہیں لیکن ابھی سیاسی لڑائی بند کمروں تک محدود ہے اور جب ایسی خبریں میڈیا پر نشر ہوتی ہیں تو کچھ ہی دن بعد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مشترکہ تصویر شیئر کر دی جاتی ہے جو شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ خیر، جہاں تک مائنس ون فارمولے کی بات ہے تو میری رائے میں بات مائنس ون فارمولے سے بہت آگے جا چکی ہے کیوں کہ زرداری صاحب کو منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔ اگر منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری کو سزا ہو گئی تو انہیں بھی سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرح تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔