زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں: اٹارنی جنرل

زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں: اٹارنی جنرل
  سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ حراستی مراکز ہو سکتا ہے نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں اور ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس کی ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑبڑ ہوجائے گی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے فاٹا، پاٹا ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے پیش ہوکر بتایا کہ حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں صوبائی حکومت نے بنائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آپ نے زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی؟، قواعد میں تو زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کرسکتے، ان کے اہلخانہ کو تفصیلات بتائی جاتی ہیں اور منع کیا جاتا ہے کہ آگے کسی کو فراہم نہ کریں، زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے قوانین کو تو دیکھ کر لگتا ہے حراست قانونی ہے مگر معلوم نہیں عملی طور پر ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے سابقہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور حراستی مراکز سے متعلق قوانین میں استعمال کیے گئے الفاظ پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ قوانین میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کو پڑھتے ہوئے جج صاحبان مسکرائے بغیر نہ رہے سکے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے فوج کی تعیناتی اور اختیارات کے سنہ 2019 کے قانون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا یہ لکھا گیا ہے اب فوج قانون کے مطابق کام کرے گی، کیا فوج گذشتہ دس سال سے قانون کے مطابق امور کی انجام دہی نہیں کر رہی تھی؟۔

پانچ رکنی لارجر بنچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے مسکراتے ہوئے سوال اٹھایا کہ قانون میں لکھا گیا ہے اب شرپسند عناصر ملک سے وفادار نہیں ہیں، تو کیا یہ شرپسند عناصر پہلے ملک سے وفادار تھے۔ اس پر کمرہ عدالت میں بیٹھے افراد کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اہل خانہ میڈیا میں شکایت کیوں کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پیاروں کا علم نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میڈیا میں آنے والی تمام شکایات غلط نہیں، بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فی الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے، بعض لاپتہ افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون میں شرپسند عناصر کیلئے انگریزی کا جو لفظ استعمال کیا گیا اس کا معنی کچھ اور نکلتا ہے، شرپسند عناصر کیلئے جس انگریزی لفظ کا انتخاب کیا گیا اس کے بلیک لاءڈکشنری میں معنی کافر، غلط کار، دہریے کے ہیں، شاید حکومت آرڈیننس کے ذریعے نئی انگریزی ایجاد کر رہی ہو ۔ اس پر چیف جسٹس برجستہ بولے شرپسند عناصر کیلئے جس لفظ کو چنا گیا یہ بھی اہم ہے لیکن پہلے ریگولیشن کی طرف آتے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ 9/11کے بعد غیرریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا، غیر ریاستی عناصر کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے، کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں، عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں، عملی طور پر کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا الگ چیز ہے، عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا ہے، یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں، عدالت نے صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے، حراستی مراکز ہو سکتا ہے نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں، 25 ویں ترمیم کے بعد حالات بہت بہتر ہو گئے، کیا اب کوئی ایسی قانون سازی ہوئی جس میں پہلے کیے گئے اقدامات کو تحفظ دیا گیا ہو۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد راتوں رات حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے، فوج ان افراد سے لڑ رہی ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے گھسے، 25 ویں ترمیم کے بعد قوانین جاری رکھنے کا ایکٹ لایا گیا، قانون سازی کے زریعے فاٹا اور پاٹا میں پہلے سے رائج قوانین کو جاری رکھا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ کیا آپ 25 ویں ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں؟۔چیف جسٹس نے بھی پوچھا کہ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں حراستی مراکز غیر آئینی ہیں؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فاٹا میں پہلے بلا واسطہ نمائندگی تھی اب براہ راست نمائندگی ہے، اب فاٹا کی تمام مشینری صوبوں کے ماتحت آچکی، اب ہم نے دیکھنا ہے کہ اقدامات آئین کے اندر ہیں یا نہیں، بظاہر صرف فاٹا ہی صوبے میں ضم ہوا ،پاٹا برقرار ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پاٹا پہلے بھی صوبے کا حصہ تھا صرف انتظامی کنٹرول گورنر کے پاس ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تین دن سے پوچھ رہے ہیں نئے آرڈیننس کی کیا وجہ تھی، بظاہر 2019 کے آرڈیننس کے ذریعے پہلے سے رائج تمام قوانین ختم ہوگئے، اب ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس ایکٹ 2019 کی معیاد بھی پوری ہو چکی، یعنی قوانین ختم کرنے والا آرڈیننس خود ہی ختم ہوگیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے کسی قانون کو ختم نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے 2019 کا آرڈیننس لانے کی وجہ کیا تھی؟، ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑبڑ ہوجائے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ اگست 2019 میں گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے ذریعے سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو قانونی تحفظ دینے اور مبینہ شدت پسندوں کو حراستی مراکز میں رکھنے کے لیے قبائلی علاقوں میں نافذ کردہ مخصوص قوانین ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن‘ کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھا دیا گیا ہے۔