کبھی کبھی جب سوچ محو پرواز ہوتی ہے تو انسان تخیلات کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ اسے اپنے اردگرد سب چیزیں فانی نظر آتی ہیں مگر جب لوگوں کی جانب نگاہ پڑتی ہے تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر لوگ کیا کیا نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کی گردنیں تک کاٹنے سے دریغ نہیں کرتے ہمارے درمیاں آج جو کچھ ہورہا ہے اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم سب خود ہیں۔ ہم نے ہی لوگوں کو مواقع فراہم کیے ہیں، ہم سب میں یہ سب سے بڑی خرابی ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر نہیں دیکھتے۔
ہم میں دوسروں کی خامیاں نظر آتی ہیں ان کو ہم پھر فخر سے بیان بھی کرتے ہیں مگر اپنی غلطیوں کو چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہوتا ہے کون ہے جو اس حمام میں ننگا نہیں۔ پہلے میں خود اپنے اپ کو جب ترازو میں تولتا ہوں تو مجھے اپنا آپ اپنا ضمیر ملامت کرتا نظر آتا ہے۔ مجھ میں بھی بلا کی خامیاں ہیں مگر نظر نہیں آتی حالانکہ کوئی بتابھی دیتا ہے مگر ہم یقین نہیں کرتے۔
اگر استاد ہے تو وہ اپنی طرف سے وقت کو ضائع کرنے اور طالب علموں کی جیبوں پر نظر رکھتا ہے کہ سکول کالجوں میں کون پڑھتا ہے باہر ٹیوشن اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں کہ طالب علم بڑی بڑی فیسیس دے کر آئیں ان کے جیب گرم ہوں طالب علم بھی فیشن کے طور پر سکول کالج یونیورسٹی صرف وقت گزاری کے لئے جاتے ہیں ان کا مقصد فوت ہوگیا ہے جن کاموں کے لئے درس گاہیں مشہور تھیں وہ اب خواب ہوگئی ہیں طالب علم کے ساتھ ساتھ والدین بھی بری الزمہ نہیں ہیں وہ بھی اس میں برابر کے شریک ہیں وہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھیج کر بھول جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کرلیا انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کس کلاس میں ہے اور کیا کرتا ہے صرف یہ تو نہیں کہ ان کی ضرورت پوری کردی اور پھر ان کو فری ہینڈ دے دیا۔
دکاندار بھی اگر اپنے گریبان میں جھانکیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں مانتے ہیں کہ مہنگائی ہے سامان کا نرخ روز روز بڑھتاہے مگر اتنا بھی نہیں کی ایک دکان میں پیپسی 65کی مل رہی ہو اور دوسرے میں 85کی دستیاب ہو۔ جب کہا جاتا ہے کہ اس چیز کا نرخ تو کم ہوگیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسے مہنگا خریدا تھا مگر جب سامان آسان خریدا جاتا ہے تو پھر یہ نہیں کہا جاتا کہ آسان قیمت پر خریدی ہے۔ اس لئے یہ سستی ہے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی اور زیادتی پر ڈرائیور حضرات کا ہم اکثر مشاہدہ اس بابت کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر کی طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ان کا پرائیویٹ کلینک اور سرکاری ہسپتال میں رویہ سامنے نظر آجاتا ہے، جس میں زمیں آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کون سا شعبہ ہے جس میں ہم دو نمبری نہیں کرتے صرف اور صرف اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ ہمیں کوئی درد کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ ہمیں احسا س تک نہیں ہوتا کہ زندگی کس ڈگر پر رواں دواں ہے۔
سیاست دان اپنے مفاد کی خاطر ہمارا سود ا کرتے ہیں ان سیاست دانوں کے چمچے بھی سیاست دان بنے بیٹھے ہوتے ہیں وہ ایک مقولہ ہے پشتو کا کہ
'ایک گدھا کہیں نواب کے گدھوں کے ساتھ کہیں چررہا تھا تو اس کے بعد وہ عام گدھوں کے ساتھ چرتا بھی نہیں تھا'
ان چمچوں کا بھی یہی حال ہوچکا ہے جو سیدھے سادھے لوگوں کے ساتھ بات بھی نہیں کرتے جبکہ ہمارے عوام بھی ایک دفعہ ڈس کر دوسری بلکہ بار بار ڈسے جاتے ہیں۔ ان لوگوں پر اور ان سیاست دانوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں جنہوں نے پچھلے الیکشن میں انہیں سبز باغ دکھائے ہوتے ہیں۔ کس کس شعبے کے لوگوں کو زیر قلم لاؤں، کس کس شعبے میں دو نمبری نہیں ہے۔
صحافت کے شعبے میں گر آپ نے نام کمانا ہے تو مگرمچھوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھو۔ سچ کا دامن چھوڑ کر قصیدے لکھنا شروع کرو تو کامیابی اور پیسوں کی ریل پیل ہوگی جس کی ہم مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ اگر سچ کی راہ اپناؤ گے تو دنیا دشمن بن جائے گی، سچ کی لگن مہنگی پڑے گی کیونکہ آج سچ ہے نہیں صرف دکھاوا ہے اور یوں صحافی زرد صحافت کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر معاشرہ اسے بلیک میلر کے نام سے جانتا ہے۔
دنیا اس کی ہوتی ہے جو جھوٹ کا ساتھی ہوتا ہے تعلیمی ادارے صرف کاروباری مراکز بن کر رہ گئے ہیں جہاں صرف اب ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں تعلیم نہیں صرف مغربی کلچر کو پروموٹ کرنے کے آڈے بن گئے ہیں۔ غیر سرکاری تنظ میں بے حیائی پھیلانے کے ذریعے بن گئے ہیں وہاں لاکھوں کی تنخواہیں پانے والے اپنے ضمیر کو بیچ کر ملک کا سودا کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے ملک کا کونہ کونہ ان کی دسترس میں آگیا ہے۔ ہر جگہ تک رسائی اور معلومات انہیں ان غیر سرکاری تنظیموں کی بدولت مل گئی ہے اور ملک کو توڑنے کی سازشوں میں پس پردہ وہ مصروف عمل ہیں۔ اگر ان غیر سرکاری تنظیموں نے پاکستان میں کام چھوڑ دیا تو ہماری زیادہ تر نوجوان چوری اور ڈاکہ ڈالیں گے کیونکہ بے روزگاری کی عفریت نے اکثر نوجوانوں کو غیر سرکاری تنظیموں نے روک رکھا ہے تو یہ نوجوا ن سڑکوں پر آجائیں گے۔
ہم یہاں کس کس شعبے کے لوگوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے ہر ادارے میں کرپشن ہے یعنی ہم سب ان حالات کے ذمہ دار ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی سے کوسوں دور پستیوں کی جانب محو پروا ز ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا سوچ کے زاوئیے تبدیل کرنے ہونگے جسکے لئے ہمیں حکمت عملی تبدیل کرنی پڑے گی تب ہی ہمارا مستقبل ہمیں روشن نظر آئے گا ۔
مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔