محسن بیگ ایک میڈیا ایجنسی آن لائن کے مالک ہیں۔ یہ پاکستان کی ایک بڑی خبر رساں ایجنسی ہے جو معاہدے کے تحت ملک کے بڑے اخبارات کو اپنی خدمات دیتی ہے جو کہ اس کی دی گئی خبریں اپنے اخبارات میں شائع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ محسن بیگ جناح اخبار کے ایڈیٹر انچیف بھی ہیں۔ ماضی میں عمران خان صاحب کے یہ بہت قریب تھے اور ان کی میڈیا ٹیم کا حصہ بھی تھے۔
بدھ کی صبح اچانک ان کے گھر پر ایف آئی اے اہلکاروں نے چھاپہ مارا اور ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ اہلکار سادے کپڑوں میں ملبوس تھے اور گرفتاری کے لئے آنے والے اہلکاروں کے پاس کوئی وارنٹ گرفتاری موجود نہیں تھا۔ اس موقع پر محسن بیگ نے اپنے لائسنس شدہ پستول سے ایک اہلکار پر حملہ بھی کیا جو کہ زخمی ہو گیا۔ اس چھاپے کو عدالت نے غیر قانونی قرار دیا لیکن محسن بیگ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔ شام کو محسن بیگ کے فرزند حمزہ بیگ کو بھی ان کے گھر پر ایک اور چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان کے گھر سے کچھ چیزیں بھی ایف آئی اے نے اپنی تحویل میں لیں۔
یہ سب کیوں ہوا؟ بظاہر تو معاملہ محض اتنا ہے کہ محسن بیگ سے نیوز ون کے ایک پروگرام میں گذشتہ ہفتے جب سوال ہوا کہ مراد سعید کی کارکردگی کو پہلے نمبر پر کیوں رکھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ اس کی تفصیلات ریحام خان کی کتاب میں ہیں۔ لیکن اصل بات صرف اتنی نہیں۔ محسن بیگ عمران خان صاحب کے ان ساتھیوں میں سے تھے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے گر سکھائے۔ بقول خود محسن بیگ کے، انہوں نے دو درجن سے زائد لوگوں کو PTI میں شامل کروایا، عمران خان صاحب کے پاکستان کی ایجنسیز کے ساتھ تعلقات بنووائے اور انہیں انتخابی مہم کے لئے قریب ایک ارب روپے کے فنڈز بھی اکٹھے کر کے دیے۔ محسن بیگ کا کہنا ہے کہ عمران خان سے ان کا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے ایک اجلاس بلایا جس میں محسن بیگ بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں جنگ گروپ کے مالک میر شکیل کی گرفتاری سے متعلق ہی بات چیت ہوئی اور محسن بیگ نے اس کی مخالفت کی۔ عمران خان ان کی بات سننے کو تیار نہ تھے اور محسن بیگ اس اجلاس سے یہ کہہ کر اٹھ آئے کہ جب آپ نے بات ہی نہیں سننی تو پھر میرا یہاں بیٹھنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اس پر عمران خان صاحب چراغ پا ہوئے، محسن بیگ کے متعلق کچھ باتیں کہیں جو کہ کچھ وزرا کے ذریعے محسن بیگ تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے عمران خان کو ایک سخت میسج بھیجا اور نمبر بلاک کر دیا۔
محسن بیگ پچھلے کچھ عرصے سے عمران خان کے ناقد ہیں۔ لیکن بڑا اچھا وقت بھی ساتھ گزارا ہے۔ وہ چند ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کے دن گنے جا چکے ہیں۔ خصوصاً اکتوبر 2021 میں جب عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے بھجوائے گئے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی میں لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو ہی 20 نومبر تک اس عہدے پر برقرار رکھا تھا۔ محسن بیگ کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد سے عمران خان اسٹیبلشمنٹ میں ٹھن چکی تھی اور اس لڑائی کا انجام عمران خان حکومت کے خاتمے پر ہی ہونا تھا۔
کیسی مزیدار بات ہے کہ کچھ ایسی ہی باتیں 1999 میں فرائیڈے ٹائمز میں اپنے اداریوں میں نجم سیٹھی بھی لکھ رہے تھے۔ کارگل واقعے کے بعد نجم سیٹھی نے بارہا اپنے اداریوں میں لکھا کہ نواز شریف اور فوجی قیادت کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور کسی بھی وقت ان کی حکومت ختم کی جا سکتی ہے۔ نواز شریف ان خبروں سے اتنے تنگ آئے کہ نجم سیٹھے کو آئی ایس آئی کے ذریعے اٹھوا لیا۔ انہیں کئی ہفتے اندر رکھا۔ اسی دوران نجم سیٹھی کو دل کا دورہ بھی پڑا۔ اور بالآخر اس واقعے سے نقصان صرف نواز شریف کو ہی ہوا۔ نجم سیٹھی آج بھی فرائیڈے ٹائمز کے اداریے لکھتے ہیں۔ حکمران ان سے آج بھی ناراض ہیں۔ لیکن اس دوران نواز شریف دو مرتبہ جیل اور دو مرتبہ جلا وطنی بھگت چکے ہیں۔ اب عمران خان صاحب بھی محسن بیگ سے ناراض ہوئے ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کی پیشگوئیوں پر اتنے نالاں ہوئے ہیں کہ ایک کتاب کا محض حوالہ دینے پر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کروا دی ہے حالانکہ کتاب کے مندرجات کا تو ذکر تک نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ریحام خان کی کتاب کا صفحہ نمبر 273 ہمیشہ کے لئے ریاستِ پاکستان کے کیس لا کا حصہ بن جائے گا۔ اور اس کی وجہ محض یہ ہے کہ عمران خان اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پائے۔
بقول محسن بیگ کے ان کا نظریاتی اختلاف عمران خان سے میر شکیل کے معاملے پر ہوا ورنہ وہ تو عمران خان کے استاد تھے۔ کچھ ایسا ہی زعم اپنے متعلق بھٹو صاحب کے کسی زمانے میں دستِ راست جے اے رحیم کو بھی تھا۔ لیکن جب اختلافات پیدا ہوئے تو بھٹو نے ناصرف جے اے رحیم کو پولیس سے پٹوایا بلکہ ان کے فرزند کو بھی درمیان میں آنے پر زد و کوب کیا گیا۔ محسن بیگ کے بیٹے کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ جے اے رحیم تو کچھ دیر پولیس کی حراست میں رہنے کے بعد واپس آ گئے لیکن اپنے ساتھیوں سے ناروا سلوک بھٹو صاحب کو کیسے بھگتنا پڑا، اس کی تاریخ گواہ ہے۔
آج کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو عمران خان صاحب بھی کچھ ایسی ہی حرکتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو اپنے آخری دنوں میں حکمران عموماً کیا کرتے ہیں۔ پاکستان ہی کی تاریخ سے دو واقعات آپ کی خدمت میں پیش کر دیے ہیں۔ کچھ حیرت نہ ہوگی اگر محسن بیگ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک مستقبل کے حکمران کے لئے ملکی تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے لئے تیسرا واقعہ بن جائے۔