کرونا وائرس کی وجہ سے مستقبل میں فضائی سفر کیسا ہوگا؟

کرونا وائرس کی وجہ سے مستقبل میں فضائی سفر کیسا ہوگا؟
دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لینے والے مہلک کرونا وائرس کا آغاز گذشتہ سال کے آخری ماہ میں چین کے صوبے ہوبے کے شہر ووہان کی ایک سی فوڈ مارکیٹ سے ہوا تھا۔ چین سے شروع ہونے والا یہ وائرس اب تقریباً پوری دنیا میں ہی پھیل چکا ہے اور اس سے اب تک دنیا بھر میں 45 لاکھ سے زائد لوگ متاثر جبکہ 3 لاکھ سے زیادہ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

اس خطرناک عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانوں کے رہن سہن پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور زندگی کے ہر پہلو میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اب دنیا بھر میں اس نئے وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے کے محفوظ طریقے ڈھونڈنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں نقل و حمل کے تیز ترین ذریعے فضائی سفر میں بھی بڑی تبدیلیاں زیر غور ہیں۔

ہوائی جہاز کا سفر ماضی کی طرح شائد دوبارہ ممکن نہ ہو سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسافروں کو فلائٹ ٹائم سے تقریبا چار گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پر پہنچنا ہوگا۔ مستقبل میں فضائی سفر کے لیے پروٹوکول اور انداز بھی نئے ہوں گے۔ ایئرپورٹ سے طیارے تک پہنچنے کے لیے چار گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑسکتا ہے۔

ماہرین نے تجاویز دی ہیں کہ چیک اِن ایریا میں داخل ہونے سے پہلے مسافروں کو جراثیم کش مشین اور جسمانی درجہ حرارت چیک کرنے کے اسکینر سے گزرنا پڑے گا۔ مسافر طیارے میں کیبن بیگز نہیں لے جاسکیں گے اور فضائی عملے کو ایئرلائن کے یونیفارم کے ساتھ ساتھ حفاظتی لباس بھی زیب تن کرنا ہوگا۔

جہاز کی روانگی سے قبل پورے طیارے میں جراثیم کشی کا اسپرے چھڑکنا ہوگا اور ہر آدھے گھنٹے کے بعد ہاتھوں کو جراثیم کش صابن یا لوشن سے صاف کرنا ہوگا۔

ایسی تجویز بھی زیر غور ہے جس کے تحت مسافروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ میڈیکل سرٹیفکیٹ رکھیں جس میں ان کی قوت مدافعت کی نشاندہی ہو سکے۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں پروازیں تو تاخیر کا شکار ہوں گی لیکن حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جا سکیں گے۔

دوسری جانب فرانسیسی ڈیزائنر کمپنی نے فضائی سفر کے دوران کرونا وائرس سے انسانوں کو بچانے کے لیے ڈیوائڈر تیار کیا ہے۔ فرانسیسی کمپنی ارتھ بے کے مطابق جہازوں کی نشتوں کو تقسیم کرنے والے آلے سستے ہیں اور انہیں درمیان میں نصب کرنا بھی آسان ہے جبکہ پورے کیبن کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کے مقابلے میں یہ تجویز زیادہ قابلِ عمل ہے۔

پلین بے نامی ڈیوائڈر کے دو حصّے ہیں، ایک حصّہ درمیانی نشست پر اور دوسرا سر اور پشت پر پھیلا ہوا ہے جو ایک مسافر کو موثر طریقے سے دوسروں سے سماجی دوری برقرار رکھنے میں مدد دے گا۔

فرانسیسی ڈیزائننگ کمپنی سے قبل اطالوی کمپنی نے بھی ایسی نشتوں کی تجویز پیش کی تھی جس میں سماجی دوری برقرار رکھی جاسکے۔

وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے سبب طیاروں کی مکمل صفائی کرنے، دوران پرواز طیارے میں مسافروں کے درمیان حفاظتی فاصلے کو برقرار رکھنے، چہرے پر لازمی ماسک پہننے، اور روانگی سے قبل ایئر پورٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کے سلسلے میں مسافروں کا ٹیسٹ کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔