تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
مریم نواز شریف نے بی بی سی کو انٹرویو کیا دیا کہ لفافہ صحافیوں اور پیرا شوٹ کے ذریعہ نازل ہونے والے حکومتی ترجمانوں کے ہاتھ پیر پھول گئے اور انہیں اس میں یو ٹرن اور آئین کے خلاف باتیں نظر آ گئیں۔ مجھے تعجب ہے کہ ہمارے کچھ معتبر صحافی حضرات بھی اس انٹرویو سے غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔
ایک اعتراض تو یہ کیا گیا ہے کہ کل تک مریم نواز کہتی تھیں کہ فوج سے کوئی بات نہیں ہو گی لیکن اب فوج سے مذاکرات کی بات کر رہی ہیں، جبکہ دوسرا اعتراض یہ کہ پہلے کہتی تھیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیئے اور آج خود دعوت دے رہی ہیں کہ فوج پہلے اس حکومت کو برطرف کرے پھر اس سے بات ہوگی۔ آئیے ان دونوں باتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر مریم نواز کیا کہہ رہی ہیں اور پیرا شوٹر ترجمان اس کے کیا معنی نکال رہے ہیں۔
۱۔ پہلی بات تو یہ کہ سیاسیات کا ایک ادنیٰ طالبعلم بھی اس بات سے واقف ہے کہ اختلاف کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو اسکا انجام مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے۔ اب کیوں کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اس حکومت کو جائز اور منتخب حکومت مانتی ہی نہیں لحاظہ اس سے بات چیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لحاظہ دوسرا فریق فوج ہی رہ جاتی ہے جو بقول پی ڈی ایم کے انتخابات میں دھاندلی کے  ذریعہ اس حکومت کو لائی ہے اور اب بھی اسکی پشت پناہ ہے۔ اب اگر پی ڈی ایم کی یہ بات صحیح ہے تو ظاہر ہے مذاکرات بھی اسی سے ہونے ہیں جس کا اس سارے معاملے میں بقول پی ڈی ایم مرکزی کردار رہا ہے۔   فوج سے مذاکرات  کی بات صرف مریم نواز نے ہی  نہیں کی بلکہ اس سے قبل پی ڈی ایم  کے دیگر رہنما بھی یہ بات کہہ چکے ہیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔
۲۔ مریم نواز سے دوسرا اہم سوال یہ پوچھا گیا کہ آپ اس حکومت کا خاتمہ آئینی یا غیر آئینی طریقہ سے کیسے کرینگی؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غیر آئینی طریقہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ فوج کو اس حکومت کو ہٹانے کیلئے نہیں کہا جا رہا۔ اس بات سے  کون واقف نہیں  کہ جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور ق لیگ کس کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی  ہیں۔ اگر اس جانب سے صرف غیر جانبداری کا اشارہ ہو جائے تو یہ حکومت ۲۴ قائم نہیں رہ سکتی اور یہی بات   مریم نواز کہنا چاہ رہی ہیں لیکن حکومتی ترجمانوں کی گھبراہٹ دیکھ کر تو  یہی لگتا ہے کہ؛

تماشہ کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے

کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔