اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بس کر دیں

اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بس کر دیں
دنیا کے تمام مہذب ممالک میں پارلیمنٹ یعنی قانون ساز ادارے (قومی اسمبلی اور سینیٹ) عوام کے نمائندہ ادارے تصور کئے جاتے ہیں اور ان کا احترام وہاں کی عدلیہ اور دیگر ادارے اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ حال ہی وزیراعظم برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کر دی لیکن برطانوی عدلیہ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے متفقہ فیصلے کے ذریعہ اسے بحال کر دیا۔ یہ اس لئے کہ جمہوریت میں عوامی رائے کو مقدم جانا جاتا ہے لیکن جب ہم اپنے ملک کی جانب دیکھتے ہیں جس کا وجود ہی ووٹ کا مرہون منت ہے تو سوائے ندامت کے کچھ نہیں ملتا۔

یوں تو یہ ملک تقریباً 26 سال بغیر آئین کے چلا اور اس عرصہ میں ہم نے سکندر مرزا، ایوب خان اور یحییٰ خان کو اس کے ساتھ 'زیادتی' کرتے دیکھا۔ بازار میں بیٹھی بیسوا کیساتھ خریدار جو سلوک کرتا ہے وہی ہمارے 'مہربانوں' نے اس ملک کیساتھ کیا۔ ان چیرہ دستیوں سے تنگ آ کر ہی ہفت روزہ چٹان کے مدیر آغا شورش کاشمیری نے کہا:

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

آئین پاکستانی کے تحت ملک میں تین ادارے ہیں جو مقننہ ( پارلیمنٹ)، انتطامیہ اور عدلیہ پر مشتمل ہیں جبکہ دیگر تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں لیکن تاریخ ہمیں کچھ اور بتاتی ہے۔ ایک ادارے کا 111 بریگیڈ جب چاہے پرائم منسٹر ہاؤس کی دیواریں پھلانگ کر منتخب وزیراعظم کو گرفتار کر سکتا ہے، پارلیمنٹ کا بوریا بستر لپیٹ سکتا ہے یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ کے منصفوں کو معزول کر کے ان کو گھروں میں نظر بند کر سکتا ہے اور اس کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔

آئین بننے کے بعد پہلا مارشل لا جنرل ضیا الحق نے لگایا اور جب تک وہ سب جہانوں کے مالک کے پکڑ میں نہیں آئے ملک میں ظلم و بربریت کا بازار گرم رکھا لیکن کسی عدالت کی جرات نہیں ہوئی کہ روک سکتی۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر آئین کو روندتے ہوئے ملک پر قبضہ کر لیا اور ہماری عدالت عظمیٰ نے انہیں آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے جس آئین میں ترامیم کا اختیار ان دونوں آمروں کو دیا اسی کی شق 6 کے تحت جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا سنگین غداری ہے، کیا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں اس جرم کے مرتکب نہیں ہوئے لیکن اسی آئین نے یہ قدغن بھی لگا دی ہے کہ ان دونوں اداروں پر تنقید نہیں ہو سکتی۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اس گھناؤنے کھیل سے عوام اب تنگ آ چکی ہے۔

بنگالیوں کا مذاق اڑا کر ہم نتیجہ بھگت چکے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام ایک عرصہ سے آپ کی زیادتیوں سے تنگ آ کر اپ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مولانا کا لانگ مارچ اور دھرنا صرف حکومت میں شراکت داری نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو سادہ الفاط میں اسے بھولا بادشاہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ سلام ہے آپ پر کہ آدھا ملک گنوا کر بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ہر بار انتخابات کے بعد عوامی ایف آئی آر آپ ہی کے نام کٹتی ہے لیکن 2013 کے انتخابات کے بعد تو آپ نے حد ہی کر دی۔ آپ نے ہر طرح سے ایک منتخب وزیراعظم کو تنگ کیا یہاں تک کے نوسربازوں سے دھرنے بھی کرائے لیکن جب تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد بھی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تو آپ نے پانامہ کیس پیدا کر لیا اور اس میں بھی جب کچھ نہ نکلا تو اقامہ پر وزیراعظم کو فارغ کروا دیا۔

پھر انتخابات میں جس طرح نتائج تبدیل کئے گئے وہ عوام کو ہضم نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے جو نعرے چھوٹے تین صوبوں میں لگتے تھے وہ نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر بھری عدالت میں لگ گئے۔ کوئی بھی محب وطن ان نعروں کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان نعروں کی نوبت  کیوں آئی۔

اس ملک و قوم کیساتھ بہت کھلواڑ ہو چکا اب ماضی کی غلطیوں کی تلافی صرف اس صورت ہو سکتی ہے جب آپ سیاست سے تائب ہو جائیں، ورنہ مولانا کے مارچ اور دھرنے کا رخ اسلام آباد کے بجائے پنڈی کی طرف بھی تو ہو سکتا ہے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔